اسلام آباد۔21جون (اے پی پی):اراکین سینیٹ نے کہا ہے کہ حکومت ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے تاکہ نان فائلر کے مقابلے میں فائلرز کی تعداد بڑھے، ہمیں معیشت کے حوالے سے میثاق معیشت کرنا ہو گا، سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں۔ جمعہ کو ایوان بالا کے اجلاس میں آئندہ مالی سال 25 ۔ 2024 کے وفاقی بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر بلال احمد خان نے کہا کہ حکومت نے 25 ۔ 2024 کا بجٹ پیش کر دیا ہے، ہمیں چاہیے کہ مثبت تجاویزدیں، بے نظیر بھٹو شہید کی جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں، انہی کے دیئے گئے وژن کے مطابق پیپلزپارٹی آج بھی جمہوریت کو آگے لے کر جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا، ہر پاکستانی شہری ہر ایک چیز پر ٹیکس دینے کے باوجود ٹیکس چور کہلاتا ہے، ہرشہری ٹیکس ادا کرنے کے باوجود نان فائلر کہلاتا ہے، کب تک عالمی اداروں سے بھیک مانگتے رہیں گے، ہمیں اپنی نئی نسل کو معاشی بحالی سے متعلق واضح روڈ میپ دینا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ٹیکس محصولات میں اضافہ ہوتا رہا لیکن ٹیکس دائرہ کار نہیں بڑھ سکا، ایف بی آر نے ٹیکس دائرہ کار بڑھانے کے لئے کوئی ٹھوس پالیسی نہیں اپنائی، اس بار بجٹ میں 9ہزار ارب روپے ٹیکس محصولات کا ہدف رکھا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومتی اخراجات 11 ہزار ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں، اگر حکومتی اخراجات اسی طرح بڑھتے رہے تو ہم سو سال میں بھی معاشی استحکام حاصل نہیں کر پائیں گے، بھاری ٹیکسوں کے باوجود حکومتی اخراجات اور پی ایس ڈی پی کے لئے فنڈز اکٹھے نہیں کر پائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سونے، تابنے، لوہے سمیت قدرتی وسائل سے مالامال ہے،76 برسوں میں ہم کان کنی کو صنعت کا درجہ نہیں دے سکے، تعمیراتی شعبے سے 72 صنعتیں وابستہ ہیں لیکن ہم نے اس شعبے کو بھی صنعت کا درجہ نہیں دیا، ہم اپنی معدنیات مٹی کے بھائو دوسروں کو بیچ رہے ہیں، ریکوڈک میں سونے تابنے کے ذخائر اس کی بڑی مثال ہے، اگر ہم خود ان ذخائر کو ڈویلپ کر پاتے تو ہم ایک ارب ڈالر کی بھیک کے لئے در در کی ٹھوکریں نہ کھاتے۔ بجٹ میں کان کنی اور معدنی وسائل سے متعلق کوئی پالیسی نہیں، بجٹ میں صرف ٹیکس لگانے پر ہی توجہ دی گئی۔ سینیٹر قاسم مندوخیل نے کہاکہ18ہزار ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا،عوام کو روزگار دینے کے لئے کوئی پالیسی نہیں ہے،پاکستانی شہری مایوس ہو کر بیرون ملک جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مہنگی بجلی کی وجہ سے پاکستانی صنعت کار کارخانے چلانے کے قابل نہیں، ہر پاکستانی ضرورت کی ہر چیز پر بلواسطہ ٹیکس ادا کر رہا ہے، فیصل آباد میں ٹیکسٹائل کے 70 کارخانے تھے اب صرف 30 رہ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے عوام کی بھلائی کی بجائے امریکا کی لڑائیوں میں حصہ دار نہیں بننا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ رئیل اسٹیٹ پر بھاری ٹیکس لگانے سے تعمیراتی صنعت تباہ ہو جائے گی، ملک میں وسائل کی کوئی کمی نہیں، بلوچستان کے پہاڑوں سے لے کر پنجاب کے زرخیز کھیتوں تک ہر قسم کے وسائل موجود ہیں۔
سینیٹر ندیم احمد بھٹو نے کہا ہے کہ18ہزار ارب روپے کے بجٹ میں کوئی ٹھوس پالیسی نظر نہیں آتی، غریب طبقہ مہنگائی میں پس چکا ہے، ہمیں معیشت کے حوالے سے میثاق معیشت کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت ہر پانچ سال میں این ایف سی ایوارڈ کا اعلان ضروری ہے، آخری این ایف سی ایوارڑ پیپلزپارٹی دور حکومت میں کیا گیا، سب سے زیادہ ریونیو سندھ دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی منی پاکستان ہے، کراچی سب کو روزگار دیتا ہے، پی ایس ڈی پی میں صوبوں کے لئے فنڈز مختص کرنے کا عمل غیر منصفانہ ہے، کراچی میں کے فور، سرکلر ریلوے کے منصوبے بروقت مکمل ہونے چاہییں تھے، وفاق ان منصوبوں کی جلد تکمیل کے لئے فنڈز مختص کرے۔
انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ ریونیو دینے کے باوجود سب سے زیادہ محرومیاں بھی سندھ میں ہیں، پیپلزپارٹی نے جمہوریت کی مضبوطی کے لئے مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دیا، پانی کی تقسیم 1991 کے معاہدے کے مطابق کی جائے، قدرتی اور معدنی وسائل پر پہلا حق مقامی آبادی کا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1973 کا متفقہ آئین ، اٹیمی پروگرام، پورٹ قاسم، سٹیل ملز، یوٹیلیٹی سٹورز، میزائل ٹیکنالوجی، زرعی اصلاحات پیپلزپارٹی کے کارنامے ہیں، خیبر پختونخوا کو نام کی شناخت پیپلز پارٹی نے دی، صدر آصف علی زرداری نے صدارتی اختیارات کم کر کے پارلیمان کے حوالے کئے، سندھ کے ایس آئی وی ٹی میں دل کے مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔ سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ جن معاشی حالات سے پاکستان گزر رہا ہے، اس میں بجٹ بنا لینا ہی بڑی بات ہے، پاکستان میں ٹیکس کلچر کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، ملک میں ٹیکس چوری کے ہوتے ہوئے ٹیکس اکٹھا کرنا مشکل کام ہے۔
پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ زرعی مشینری پر محصولات کو ختم کرنا زراعت کی ترقی کے لیے ضروری امر ہے،ملک کے بجٹ کو عوام دوست ہونا چاہیے ، اکانومی کی بحالی کے لیے اداروں کی نجکاری ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ کے بارے میں ہمیشہ حکومت اسے متوازن اور اپوزیشن عوام دشمن قرار دیتی ہے،ہمیں متوازن سوچ اپنانا ہو گی۔انہوں نے کہاکہ ہم ٹیکسٹائل سیکٹرز سے 20 ارب ڈالر تک کی آمدن حاصل کر سکتے ہیں ،ہم اپنی زرعی زمینوں پر تیزی سے رہائشی کالونیاں بنا رہے ہیں ،زراعت ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔انہوں نے کہا کہ کسانوں اور زراعت کی ترقی کے لئے سستی بجلی ، اچھے بیج کی فراہمی ضروری ہے،ہمیں ٹیکس اصلاحات کرنا ہوں گی۔
سینیٹر شہادت اعوان نے بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ مہنگائی کے تناظر میں ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے، کراچی کی کے فور سکیم کے لئے زیادہ بجٹ مختص کیا جائے، حکومت بجٹ پر نظرثانی کرے۔ سینیٹر ذیشان خانزادہ نے کہا کہ معاشی استحکام سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں، حقیقی جمہوریت کے بغیر سیاسی استحکام حاصل نہیں کیا جا سکتا، نجی شعبے کا معیشت کے فروغ میں اہم کردار ہے، ریئل سٹیٹ پر ٹیکسوں کا خاتمہ کیا جائے۔ سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ یہ درست ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں کاش یہ بات اس وقت یاد آتی جب امپائر کی انگلی کھڑی کرنے کا کہا جاتا تھا،پنجاب حکومت نے مختصر عرصے میں بہترین اقدامات کئے،خیبر پختونخوا میں کون سے منصوبے مکمل ہوئے وہ بھی بتا دیں،وزیراعلی خیبرپختونخوا ہر روز دھمکیاں دیتے ہیں،وہ زبردستی گرڈ اسٹیشن کھلوا رہے ہیں،وزیر اعلی خیبر پختونخوا سرعام کہتے ہیں کہ بجلی چوری کوئی بری بات نہیں۔
کاش کہ اپ خیبر پختونخوا میں کوئی ایک اچھا منصوبہ بھی پیش کر سکتے،میاں نواز شریف کا خواب تھا کہ ملک کا نارتھ سے ساوتھ حصہ موٹروے سے منسلک ہو،آج یہ خواب اپنی تعبیر کے قریب ہے،جلد موٹر وے کا حیدرآباد سکھر حصہ بھی مکمل ہو جائے گا،سٹاک مارکیٹ میں انڈکس ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے،مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی،پنجاب میں سڑکوں کو عرق گلاب سے دھویا جا رہا ہے،ہمیں تنقید برائے تنقید نہیں کرنی چاہیے۔