
اسلام آباد۔17اپریل (اے پی پی):سفارتکاروں، تجزیہ نگاروں اور مذہبی رہنمائوں نے کہا ہے کہ خارجہ پالیسی کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد حکومت کا کام ہے اور عوام کا کوئی گروہ حکومت پر اپنی رائے مسلط کرتے ہوئے اسے ڈکٹیٹ نہیں کرسکتا، علماءکرام، سیاست دانوں، دانشوروں اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں سمیت مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں کے پرتشدد مظاہروں کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے کسی گروہ کو معاشرے میں مذہبی منافرت پھیلانے اور پر تشدد کارروائیوں کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ ریاست کی عمل داری کو یقینی بنانے کے لئے شرپسندوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ واضح رہے کہ حکومت نے انتہا پسندی، عدم برداشت اور تشدد کے رویئے کی حوصلہ شکنی کے لئے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت تحریک لبیک پر پابندی عائد کر دی ہے اور اس ضمن میں باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ یہ اقدام تحریک لبیک کے سربراہ علامہ سعد رضوی کی حراست کے بعد اس کے کارکنوں کے پرتشدد مظاہروں کے جواب میں اٹھایا گیا۔
تحریک لبیک کے کارکنوں نے سڑکوں اور بڑی شاہراہوں کو بند کیا، سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا، پولیس اہلکاروں پر حملے کئے جس کے نتیجے میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔ سابق سفیر آصف درانی نے ”اے پی پی“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ خارجہ پالیسی کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد حکومت کی ذمہ داری ہے، کوئی سیاسی یا مذہبی گروپ کسی معاملے میں حکومت کو اپنی رائے تو دے سکتا ہے لیکن وہ اسے ڈکٹیٹ نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا کہ تحریک لبیک کا فرانسیسی سفیر کو اپنے ملک واپس بھیجنے کا مطالبہ سفارتی اور سیاسی لحاظ سے مناسب نہیں ہے۔ سابق سفیر نے کہاکہ ایسے کسی گروپ کو خارجہ پالیسی کے معاملات پر معاشرے میں مذہبی منافرت پھیلانے اور تشدد کا راستہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ سابق سفیر ایاز وزیر نے کہا کہ دنیا میں کہیں بھی اس قسم کے گروپ بین الاقوامی ایشوز پر حکومت کو ڈکٹیٹ نہیں کرتے۔ عالمی امور کی انجام دہی حکومت کا کام ہوتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے ”اے پی پی“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسے مظاہرے جن میں راستے، سڑکیں بلاک کی جائیں، ایمبولینسوں کا راستہ روکا جائے، تشدد ہو اور عوام کو نقصان پہنچایا جائے، اسلامی تعلیمات کی روح کے منافی ہیں۔
انہوں کہا کہ سرکاری فیصلے لوگوں کے کسی گروپ کو نہیں بلکہ متعلقین (ماہر حکام)کو کرنے چاہئیں جو بین الاقوامی معاملات اور دوطرفہ تعلقات کا ادراک رکھتے ہیں۔ تحریک لبیک پاکستان پر پابندی سے متعلق حکومتی فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے ”اے پی پی“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن میں ہونے کے باوجود اے این پی ملک کی نظریاتی سیاسی جماعت کی حیثیت سے تمام شدت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی اور ان پر پابندی عائد کر کے قومی ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کیلئے حکومت کی حمایت کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پریشر گروپوں کی جانب سے عوام کے جذبات سے کھیل کر ملک کو بدنام کرنے اور سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کا استحصال نہیں کیا جانا چاہئے۔ سائوتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن (سیفما) کے سیکریٹری جنرل امتیاز عالم نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ مذہب تشدد، نفرت اور شرانگیزی کی اجازت دیتا ہے اور جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہیں حقیقت میں آپ کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ صرف گروپ پر پابندی لگانا ناکافی ہے، سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کے استعمال کو بھی روکا جانا چاہئے۔ سوشل میڈیا پر بھی عوام کی اکثریت نے بھی سڑکوں پر تحریک لبیک کے مظاہرین کی پرتشدد کارروائیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
وفاقی وزیر چوہدری فواد حسین نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر کہا کہ برصغیر میں اسلام درگاہوں،اولیائے کرام کی تبلیغ بزرگان دین کی محبت، اخلاص اورانسانیت کے درس کی مضبوط بنیادوں پر استوار ہوا، انہوں نے کہاکہ تحریک لبیک جیسے شدت پسند گروہ اسلام کی اس شناخت کو بدلنا چاہتے ہیں اور تشدد اور انتہاپسندی کو ہوا دینا چاہتے ہیں ۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ایسی کوششوں کو ناکام بناناہر مسلمان کا فرض ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو بلیک میل نہیں کیا جا سکتا جبکہ پولیس اہلکاروں کے خلاف تشدد کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہئے۔ ”اے پی پی“ سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی و مشرق وسطیٰ حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ جمہوری معاشروں میں پرامن مظاہرہ عوام کا بنیادی حق ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ریاست اپنے لوگوں کے قتل، ان کی املاک کو نذر آتش کرنے اور انہیں یرغمال بنانے کے عمل کو برداشت نہیں کر سکتی، یہ نہ صرف افسوسناک بلکہ قابل مذمت بھی ہے۔ تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات کے پیش نظر حکومت نے ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں پارٹی پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔