فیصل آباد ۔ 13 دسمبر (اے پی پی):سکول کی سطح پر نیوٹریشن کوسلیبس کا حصہ بنا کر مستقبل کےلئے ایک توانا اور صحت مند قوم کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے جس سے جی ڈی پی کی 3فیصد شرح کوقومی تعمیر کے دوسرے منصوبوں کےلئے زیرغور لایا جا سکے گا ۔ انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ سائنس کے زیراہتمام الائنس فار امپرووڈنیوٹریشن کے تعاون سے سکول اساتذہ کےلئے فوڈ نیوٹریشن سے متعلق تربیتی ورکشاپ سے خطاب کے دوران ماہرین طب ڈاکٹر عائزہ یاسین ملک، ڈاکٹر فیض رسول،ڈاکٹر ذوالفقار علی، ڈاکٹر محمد نجیب اسلم،ڈاکٹر مسعود صادق، ڈاکٹر ظہورحسین، ڈاکٹر بینش سرور و دیگر مقررین نے حالیہ تحقیقی اعدادو شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سکول جانے والے بچوں کی ایک بڑی تعداد صبح ناشتہ کئے بغیر سکول پہنچتی ہے جس کے نتیجہ میں وہ دوسرے بچوں کے مقابلہ میں اچھی پرفارمنس کا مظاہرہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شہری علاقوں میں اکثر والدین دیر تک ٹیلی ویژن سکرین کے سامنے بیٹھے یا موبائلزو ٹیبز پر مصروف رہتے ہیں اور صبح دیر سے بیدار ہونے کی وجہ سے بچوں کے لئے بروقت ناشتہ اور انہیں سکول روانہ کرنا ایک بڑاچیلنج بن چکا ہے لہٰذا گھروں میں رات کو جلد سونے اور صبح جلد بیدار ہونے کی عادت کو رواج دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری خوراک کو سادہ اور متوازن ہونا چاہیے اور ہمیشہ بھوک رکھ کر کھانا کھایا جائے تو انسانی جسم اچھی کارکردگی دکھاتا ہے۔ انہوں نے صحت کے حالیہ اعدادو شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 60فیصد افراد وٹامن ڈی جبکہ 45فیصد وٹامن اے کی کمی کا شکار ہیں۔ اسی طرح 49فیصد خواتین خون کی کمی جبکہ 43فیصد بچوں کی گروتھ جمود کا شکار ہے
لہٰذا بچوں کے ابتدائی سالوں کے دوران اس کمی کو دور کرنے کےلئے ان کی خوراک میں وہ تمام ضروری اجزاشامل کئے جانے چاہئیں جن کی انہیں ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی غذا میں وہ تمام عناصر شامل کرنا ہیں جن کی وجہ سے وہ متوازن اور جسم کو تقویت پہنچائیں ۔ انہوں نے کہاکہ آج غیرموزوں غذاکے استعمال سے 45فیصد سے زائد بچے اور خواتین غذائی کمی کا شکار ہیں جنہیں خوراک کو متنوع اور تقویت بخش بناکر انہیں صحت مند شہری بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے والدین پر زور دیا کہ بچوں کی غذا میں بہتری کےلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور صبح ان کے ناشتے کو ضرور یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ خوراک کی کمی کی وجہ سے قومی شرح نمو میں 3فیصد کمی ہورہی ہے
لہٰذا ہمیں بچوں اور خواتین کی خوراک میں بہتری کےلئے قومی سطح پر پروگرام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ فولاد اور وٹامن کی کمی کی وجہ سے پیش آنےوالی مشکلات کا احاطہ کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران عوامی سطح پر شعور اُجاگر کرنے سے آئیوڈین کمی کی شرح میں نمایاں بہتری ہوئی ہے۔ انہوں نے غذائی کمی کوناخواندگی، خوراک کے حوالے سے قوت خریدکے مسائل، فاسٹ فوڈ کا بڑھتا ہوا استعمال اور عوامی شعور میں کمی کو قرار دیا۔ انہوں نےاساتذہ پر زور دیا کہ وہ سکول کی سطح پر بچوں میں متوازن خوراک کی اہمیت اور افادیت کا شعور اُجاگر کریں۔انہوں نے کہا کہ سکول جانے والے بچوں کی خوراک میں پھل، سبزیاں، دال اور گوشت کے استعمال کوبڑھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہاکہ والدین کو اپنے بچوں کی خوراک اور ترجیحات کا ادارک ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ غیرمتوازن اور فاسٹ فوڈ کے استعمال سے غذائی کمی کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ لوگوں کو اپنے قد اور وزن کے تناظر میں باڈ ی ماس انڈکس (بی ایم آئی)سے ضرور جانکاری ہونی چاہیے کیونکہ 18.5سے کم بی ایم آئی کے حامل افراد انڈرویٹ، 18.49تا 24.99بی ایم آئی کے حامل صحت مند،25تا 30بی ایم آئی رکھنے والے افراد اوورویٹ جبکہ 30سے زائد بی ایم آئی والے افراد موٹاپے کا شکار قرار دیئے جاتے ہیں۔ورکشاپ سے ڈاکٹرسہیل کامران اور ڈاکٹر عمران چوہدری نے بھی خطاب کیا۔