18.2 C
Islamabad
پیر, مارچ 10, 2025
ہومقومی خبریںسی پی پی اے-جی اور کے الیکٹرک کے آر ایل این جی...

سی پی پی اے-جی اور کے الیکٹرک کے آر ایل این جی پاور پلانٹس کے فیول کی لاگت دسمبر 2024 کے لیے مساوی رہی،کےالیکٹرک ترجمان

- Advertisement -

اسلام آباد۔9مارچ (اے پی پی):کے الیکٹرک کے ترجمان نے کہا ہے کہ دسمبر 2024 کے دوران سی پی پی اے-جی کی جانب سے حاصل کی گئی بجلی کا 21 فیصد (یعنی 2,171 میگاواٹ) قومی گرڈ میں موجود آر ایل این جی پاور پلانٹس سے آیا، جبکہ کے الیکٹرک نے 19 فیصد (یعنی 252 میگاواٹ) بجلی آر ایل این جی سے پیدا کی اور اس مدت کے دوران چلنے والے کےالیکٹرک کے پاور پلانٹس کی فیول لاگت قومی گرڈ میں موجود ان پاور پلانٹس کے مساوی تھی۔ ترجمان نے مزید وضاحت کی کہ دسمبر 2024 میں کےالیکٹرک کی بجلی پیداوار کے اخراجات اور قومی گرڈ سے حاصل شدہ بجلی سے متعلق رپورٹس کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے۔

سردیوں کے موسم کے باعث اس مہینے میں طلب کم رہی اور کےالیکٹرک نے این ٹی ڈی سی سے اپنی بجلی کی سپلائی کو مناسب طور پر منظم کیا۔ کم طلب کے مطابق این ٹی ڈی سی نیٹ ورک سے متوازن سپلائی حاصل کی گئی جس میں وہی پلانٹس استعمال کیے گئے جن کی لاگت این ٹی ڈی سی نیٹ ورک میں چلنے والے دیگر پلانٹس کے مساوی تھی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگر کے الیکٹرک کو وعدے کے مطابق مقامی قدرتی گیس کا کوٹہ مل جاتا تو فیول لاگت کم ہو کر 8 روپے فی یونٹ تک آ سکتی تھی جو دسمبر 2024 میں موجودہ لاگت کا محض 40 فیصد بنتی۔

- Advertisement -

ترجمان نے مزید بتایا کہ اس موقع پر یہ اجاگر کرنا ضروری ہے کہ صرف فیول لاگت کا موازنہ جیسا کہ میڈیا سے نشر ہونے والی رپورٹس میں کیا گیا – مکمل تصویر پیش نہیں کرتا ایک جامع تجزیہ جس میں کپیسٹی پیمنٹس بھی شامل ہوں یہ ظاہر کرتا ہے کہ قومی گرڈ سے بجلی کی کل خریداری لاگت تقریباً 27 روپے یونٹ ہے جبکہ کے-الیکٹرک کی بجلی خریداری کی لاگت بھی اسی کے مساوی ہوگی۔بجلی کی فیول لاگت کے لحاظ سے کےالیکٹرک کا سسٹم سی پی پی اے-جی کے مقابلے میں زیادہ ہوسکتا ہے کیونکہ سی پی پی اے-جی کے برعکس، کےالیکٹرک کے پاس جوہری یا ہائیڈرو پاور پلانٹس نہیں ہیں، اور نہ ہی اسے اپنے پلانٹس چلانے کے لیے مقامی یا کم بی ٹی یو گیس کی مناسب مقدار فراہم کی جاتی ہے۔

تاہم جب آر ایل این جی پاور پلانٹس کی آپریشن کی بات آتی ہےتو کے الیکٹرک کی بجلی کی خریداری قومی گرڈ کے مساوی ہے۔جیسا کہ نیپرا کے معزز رکن نے درست طور پر نشاندہی کی کےالیکٹرک سستی بجلی کے حصول کے لیے این ٹی ڈی سی سے خریداری کے لیے پرعزم ہےاور اس کا عملی مظاہرہ کےالیکٹرک کی جانب سے کے کے آئی اور دھابیجی گرڈز کی تکمیل سے ہو چکا ہےجس کے ذریعے این ٹی ڈی سی سے بجلی کی مقدار بڑھا کر تقریباً 2,000 میگاواٹ تک لے جائی جا سکتی ہےجس کی حتمی تصدیق این ٹی ڈی سی سے متوقع ہے۔اسی دوران کے الیکٹرک این ٹی ڈی سی کے ساتھ فعال طور پر رابطے میں ہے اور زیادہ مربوط اور مؤثر بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اس کے تعاون کا خواہاں ہے۔

باہمی اشتراک کے ذریعے کےالیکٹرک تمام اسٹیک ہولڈرز کے مفاد میں نظام کی پائیداری اور استحکام کو بہتر بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ کے الیکٹرک اپنی توانائی کی لاگت کو متوازن بنانے کے لیے بھی متحرک ہے اور اس مقصد کے لیے کمپنی پہلے ہی 640 میگاواٹ کے قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کے لیے آر ایف پیز جاری کر چکی ہے۔مسابقتی بولی کا عمل مکمل کر لیا گیا ہےاور ان منصوبوں کے بولی کے تجزیاتی رپورٹس نیپرا کی ہدایات کے مطابق جمع کروا دی گئی ہیں۔کےالیکٹرک ایک پبلک لسٹڈ کمپنی ہےجس کا قیام 1913ء میں عمل میں آیا اور کے ای ایس سی کے نام سے پاکستان میں شمولیت ہوئی۔

2005 میں کمپنی کی نجکاری کی گئی۔ کےالیکٹرک کراچی اور اُس کے ملحقہ علاقوں کو بجلی فراہم کرتی ہے۔ کمپنی کے 66.4 فیصد اکثریتی حصص (شیئرز) کے ای ایس پاور کی ملکیت ہیں جو سرمایہ کاروں کا ایک کنسورشیم ہے جس میں سعودی عرب کی الجومعہ پاور لمیٹڈ، کویت کا نیشنل انڈسٹریز گروپ (ہولڈنگ) اور انفرا اسٹرکچر اینڈ گروتھ کیپٹل فنڈ (آئی جی سی ایف) شامل ہیں۔ کےالیکٹرک میں حکومت پاکستان کے بھی 24.36 فیصد اقلیتی حصص ہیں۔بقیہ حصص فری فلوٹ شیئرز کے طور پر درج ہیں۔

 

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=570647

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں