شہبازگِل کے بیان کے تانے بانے بنی گالہ سے ملتے ہیں،وزیراعظم کے معاون خصوصی عطاتارڑکی پریس کانفرنس

شہباز گِل نے دوران تفتیش بیان کہ اے آر وائی نیوز چینل پر نشر ہونے والا بیان پارٹی پالیسی سے ہٹ کر نہیں تھا، یہ بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے تانے بانے بنی گالہ سے ملتے ہیں، وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا تارڑ کی پریس کانفرنس

اسلام آباد۔11اگست (اے پی پی):وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا تارڑ نے کہا ہے کہ شہباز گِل نے دوران تفتیش جوبیان دیا ہے کہ اے آر وائی نیوز چینل پر نشر ہونے والا بیان پارٹی پالیسی سے ہٹ کر نہیں تھا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے تانے بانے بنی گالہ سے ملتے ہیں، پاکستان کی تاریخ میں اس طرح افواج پاکستان کے اندر تفریق ڈالنے، بغاوت پر اکسانے کی کبھی کسی نے کوئی سازش نہیں کی، فارن فنڈنگ سے چلنے والی جماعت کا بیرونی سازش کا بیانیہ کھل کر سامنے آ گیا ہے،

ملک دشمن سازشی بیانیے کی سیاست کو دفن کرنے کا وقت آ گیا ہے، لاہور سٹیڈیم سے آسٹروٹرف اکھاڑ کر جلسہ گاہ کیلئے عمران نیازی کو اجازت دینے کے معاملہ کو عدالت میں لے کر جائیں گے، فرح گوگی اور احسن جمیل کو واپس لا کر عدالتی کارروائی کا حصہ بنایا جائے۔

جمعرات کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پولیس کے پاس ریمانڈ پر ملزم سے تفتیش جاری ہے اور اب تک جو پیش رفت ہوئی ہے اس میں اس نے بیان دیا ہے کہ چینل پر چلنے والا ان کا بیان پارٹی پالیسی سے ہٹ کر نہیں ہے اور اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ یہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا اور اس سازش کے تانے بانے بنی گالہ سے ملتے ہیں، جو تحریری بیان شہباز گِل نے پڑھ کر سنایا وہ بھی تفتیش کیلئے پولیس کو درکار ہے کیونکہ الفاظ کی ادائیگی سے نہیں لگتا کہ یہ فی البدیہہ الفاظ ادا کئے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی کسی نے ایسا نہیں کیا کہ مسلح افواج میں بغاوت پر اکسانے کی سازش نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ جوں جوں چیزیں کھل کر سامنے آ رہی ہیں تو عوام کو پتہ چل رہا ہے کہ ملک دشمن ایجنڈا کس کا تھا، غیرملکی فنڈنگ سے چلنے والی پارٹی شہداء پر جب سیاست کرتی ہے وہ بھی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا، فارن فنڈڈ ایجنڈے پر اس طرح فوج کو بدنام کیا جائے ایسا بھی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا اور یہ اس لئے کیا گیا کیونکہ عمران نیازی کا بیرونی سازش کا بیانیہ ناکام ہو چکا تھا اور انہوں نے فوج کے خلاف بیانیے کو تقویت دینے کیلئے کیا اور اس میں ملکی سالمیت کی بھی پرواہ نہ کی گئی اور اپنی اقتدار کی دوری سے حواس باختہ ہو گیا ہے کہ کہتا ہے کہ میں نہ رہا تو خدانخواستہ پاکستان بھی نہیں رہے گا،

آپ کے منہ میں خاک اور 14 اگست کو 27 ویں رمضان کی شب معرض وجود میں آنے والی ریاست نے تاحیات رہنا ہے، ہم نہیں ہوں گے، آپ نہیں ہوں گے مگر یہ مملکت خداداد ہوگی۔ عطا تارڑ نے کہا کہ جو فارن فنڈنگ بھارتی شہریوں سے لی، رمیتا شیٹھی کون ہے، بیری شی سنپس، اندرجی دوسانج کون ہے اور جب فارن فنڈنگ کے کسی ایک بھی کاغذ کا آپ کے پاس جواب نہیں تو آپ ملکی دفاع کرنے والے ادارے کے خلاف حملہ پر اتر آئے ہیں جس کا جشن ہمارے دشمن منا رہے ہیں

، اس پر آپ کو شرم نہیں آتی، دوران تفتیش بڑی پیش رفت ہوئی ہے اور شہباز گِل نے اعتراف کیا کہ ان کا بیان پارٹی پالیسی کے خلاف نہیں اور عمران خان نے جو تقریر کی اس میں بھی انہوں نے کسی قسم کی اس بیان کی مذمت نہیں کی، شیخ رشید نے بھی مذمت نہیں کی، سیالکوٹ کا ایک ڈار کہہ رہا تھا کہ الفاظ کا چنائو مناسب نہیں،

شہباز گِل کو بہتر الفاظ استعمال کرنے چاہئے تھے اور جب ڈار سے پوچھا گیا کہ تم نے یہ بیان سنا ہے تو کہنے لگے نہیں میں نے بیان نہیں سنا اور جب انہوں نے بیان ہی نہ سنا ہو تو وہ کن الفاظ کے چنائو کی بات کر رہے ہیں۔ عطا تارڑ نے کہا کہ یہ سب شہباز گِل کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس کی قبیح حرکت کا دفاع کر رہے ہیں، پنجاب میں بیٹھے اتحادی حکومت کا پہلا ہی ردعمل یہ تھا کہ مونس الٰہی جس کے پاس کوئی سرکاری عہدہ یا اختیار نہیں، اس نے پنجاب پولیس کو ہدایت کی کہ بنی گالہ چلے جائیں، ان سے پوچھتا ہوں کہ وہ کس حیثیت میں یہ احکامات دے رہے تھے، بہتر ہوتا آپ فوج کے ساتھ کھڑے ہوتے،

آپ کے والد پرویز الٰہی نے بھی مذمت کرنے میں چوبیس گھنٹے لگا دیئے اور کہتے ہیں کہ میں نے شہباز گِل کو ڈانٹا کہ تم نے ایسا بیان کیوں دیا ہے۔ عطا تارڑ نے کہا کہ میں پرویز الٰہی سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے یہ ڈانٹ ڈپٹ کہاں پلا دی، شہباز گِل تو پولیس کی حراست میں تھے،

پنجاب کے کسی وزیر کو مذمت کی توفیق نہیں ہوئی اور صوبائی وزیر داخلہ جو خود فوجی افسر رہ چکے ہیں وہ بھی مذمت کی بجائے سیدھا بنی گالہ دربار میں حاضری کیلئے پہنچ گئے اور بیان دیتے ہیں کہ شہباز گِل کی گرفتاری کے ردعمل میں پنجاب میں عطا تارڑ کو گرفتار کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ میں جھکنے اور بکنے والا نہیں اور چیلنج کرتا ہوں کہ آپ ایسا کرکے دکھائیں، ایک ایسا شخص جو ٹی وی پر آ کر فوج اور ملکی سالمیت کے خلاف سازش کرے اور ملک دشمن بیانیہ پڑھ کر سنائے،

آپ اس کے ردعمل میں میری گرفتاری کی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ میں پاکستانی شہری ہوں اور آئین پاکستان نے ملک میں کہیں بھی جانے کے مجھے حقوق دیئے ہیں اور ہم اس سازشی بیانیے کا دفاع کرنے کیلئے پنجاب حکومت کی کسی بھی کارروائی کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ عطا تارڑ نے کہا کہ ہم کبھی بھی اس ملک کی سالمیت پر آنچ نہیں آنے دیں گے اور اس سازشی بیانیے کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے،

پنجاب کے وزارء مذمت کرنے کی بجائے ڈھٹائی کے ساتھ شہباز گِل کا دفاع کر رہے ہیں، عمران خان کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کو کیا کسی نے نہیں بتایا کہ 124-A کے تحت پہلے پرچہ درج ہوا پھر گرفتاری عمل میں لائی گئی، وہ کس قانونی کارروائی کی بات کر رہے ہیں، فارن فنڈڈ پارٹی کے سربراہ ہوتے ہوئے اپنے دور میں جو غیرقانونی اقدامات اور گرفتاریاں آپ نے کیں، آپ کو شاید وہ یاد نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہودیوں اور بھارتی نژاد امریکیوں سے آپ نے پیسے لئے ہوئے ہیں اور اسی پیسے سے آپ فوج اور ملک کی سالمیت کے خلاف بات کرتے ہیں، شہداء کی قربانیوں پر سیاست کرتے ہیں اور آپ کا یہ ایجنڈا غیرملکی سازش کا حصہ ہے اور اب ایسا نہیں چلے گا، آپ کو کہنا چاہتا ہوں ”ایبسولوٹلی ناٹ”، اب بالکل ایسا نہیں چلے گا، آپ فارن فنڈنگ بھی لیں اور شہباز شریف سے لے کر خواجہ آصف تک سب کو جیلوں میں ڈالیں اور ایک دھیلے کی کرپشن بھی ثابت نہ کر سکیں اور این آر او کی رٹ لگائیں۔

انہوں نے کہا کہ آج وہ شہزاد اکبر کہاں ہے جو کاغذ لہرا کر لوگوں کو گمراہ کیا کرتا تھا اور جس پر کوئی کیس نہیں تھا اس پر آپ نے 15 کلو ہیروئن ڈال کر گرفتار کر لیا اور آپ کے وزیر ٹی وی پر بیٹھ کر کہتے تھے کہ اللہ کو حاضر ناضر جان کر بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو خدا کا کوئی خوف نہیں، مذہب کو بھی آپ نے نہیں چھوڑا کیونکہ سیاسی ٹچ دینا آپ کی روایت تھی اور آپ اس سطح تک سیاست میں نیچے گر گئے کہ آپ کو کوئی قانون قاعدہ یاد نہیں تھا۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ جس این آر او کی آپ بات کرتے ہیں وہ این آر او آپ نے اپنے خاندان کو دیا، بشرٰی بی بی اور فرح گوگی کے نام پر لوٹ مار کی اور آج فرح گوگی اور احسن جمیل اسی این آر او کے تحت دبئی میں بیٹھے ہیں جنہیں اقتدار جاتا دیکھ کر آپ نے خود فرار کرایا۔ انہوں نے کہا کہ آج میں دوبارہ مطالبہ کرتا ہوں کہ انہیں واپس لایا جائے اور مقدمہ میں شامل تفتیش کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہودیوں اور بھارتیوں سے پیسے آپ لیں اور دوسروں کو امپورٹڈ کہتے ہیں، شرم آنی چاہئے آپ نے تو نمل یونیورسٹی بھی قبضہ کی جگہ پر بنائیں اور نمل جھیل کے سامنے اپنے ولاز بنانا چاہتے ہیں، آپ نے عطیات اور صدقات بھی نہیں چھوڑے اور فوج کے خلاف بیانیہ بھی آپ نے دیا، چوریاں اور ڈکیتیاں بھی آپ کریں اور قوم کو بے وقوف بھی آپ بنائیں۔

انہوں نے کہا کہ اب ایسا نہیں چلے گا، شہباز گِل کی جیب میں امریکی شہریت ہے اور وہ آپ کا چیف آف سٹاف ہے اور دوسروں کو امپورٹڈ حکومت کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اتنے بڑے قول و فعل کا تضاد، ملک دشمن بیانیہ کی سیاست کو دفن کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محب وطن، پاکستان کا درد رکھنے والے اور ملک کے عزت و وقار میں اضافہ دیکھنے کے خواہش مند عمران خان کے حامی نہیں ہو سکتے کیونکہ انہوں نے آخری حد بھی پار کر دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری کہہ رہے تھے کہ پی ٹی وی کو دائو پر لگا دیا ہے جبکہ دلیل کے ساتھ بات کروں گا کہ کھیلوں کے براڈکاسٹنگ رائٹس آپ نے غیرقانونی طور پر پی ٹی وی سے چھین کر اے آر وائی کی جھولی میں ڈالے تھے جس کی ایف آئی اے تحقیقات کر رہا ہے اور اس وقت آپ کو پی ٹی وی کا کوئی احساس نہیں تھا، جتنی زبوں حالی کا شکار پی ٹی وی کو آپ نے کیا ایسی پی ٹی وی کی حالت کبھی نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ملک دشمن بیانیہ فارن فنڈنگ سے بنا تھا اور جس چینل نے یہ سازشی بیانیہ نشر کیا اور اب وہ لاتعلقی کر رہا ہے، یہ سب اس سازش میں ملوث ہیں اور یہ سازش فارن فنڈنگ سے لئے پیسوں سے تیار کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ لاہور سٹیڈیم میں بچوں کے ہاکی میچز رکوا کر اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے عمران خان کے جلسہ کیلئے آسٹروٹرف اکھاڑ دیئے گئے ہیں اور قوم کے پیسے اور اثاثے کا نقصان کیا گیا ہے، اس کے خلاف عدالت جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آسٹروٹرف اکھاڑنے کا ایسا عمل بال ٹھاکرے نے بھارت میں کیا تھا اور اب عمران خان نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے بال ٹھاکرے کی روایت کو تازہ کر دیا ہے، ملک دشمن بیانیے پر پنجاب حکومت فوری مذمت کرے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فرح گوگی کی واپس کا مطالبہ عمران خان سے کر رہا ہوں کیونکہ وہ گرح گوگی کو اس لئے واپس نہیں آنے دے رہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ فرج گوگی نے آتے ہی ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جانا ہے۔