ضمنی مالیاتی بل کابنیادی مقصد معیشت کودستاویزی بنانا ہے، 343 ارب روپے کے نئے ٹیکس نہیں لگائے جارہے بلکہ ٹیکس چھوٹ کو ختم کیا جارہاہے،وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین کی وزیرمملکت فرخ حبیب اورچئیرمین ایف بی آر کے ہمراہ پریس کانفرنس

153
مالیاتی ضمنی بل سے عوام پر بوجھ کی باتیں بے بنیاد ہیں، مہنگائی بڑھنے کی افواہیں پھیلائی گئیں، حکومت نے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جس سے غریب آدمی پر بوجھ پڑے، وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کی وزیر مملکت فرخ حبیب کے ہمراہ پریس کانفرنس

اسلام آباد۔30دسمبر (اے پی پی):وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین نے کہاہے کہ ضمنی مالیاتی بل کابنیادی مقصد معیشت کودستاویزی بنانا ہے، 343 ارب روپے کے نئے ٹیکس نہیں لگائے جارہے بلکہ ٹیکس چھوٹ کو ختم کیا جارہاہے،گندم، چاول، تازہ پھل اورسبزیاں، دودھ، گنا ،ٹریکٹر، کھادوں، زرعی مداخل، کیڑے مارادوایات، پرانے کپڑے اورسینما کے آلات پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا، اپوزیشن اورسوشل میڈیا پرجو واویلا مچایا جارہاہے اس میں کوئی حقیقت نہیں، اداروں کومضبوط بنانا پی ٹی آئی کے منشورکاحصہ ہے،حکومت مہنگائی کے مقامی عوامل پرقابوپانے کی کوشش کررہی ہے، اس وقت کئی سبزیوں اورپھلوں کی قیمت گزشتہ سال کے مقابلہ میں 20 سے لیکر30 فیصد تک کم ہے۔

جمعرات کویہاں وزیرمملکت اطلاعات ونشریات فرخ حبیب اورچئیرمین ایف بی آر کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں انہوں نے بتایا کہ ضمنی مالیاتی بل کابنیادی مقصد معیشت کودستاویزی بنانا ہے،ماضی میں ٹیکس چھوٹ کا غلط استعمال ہورہاتھا،اس وقت جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد ہے جویکساں نہیں ہے، ٹیکس چھوٹ لینے والے ری فنڈبھی حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات میں 700 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ پربات چیت ہوئی، اس میں پرایڈنٹ فنڈ اورپرسنل انکم ٹیکس بھی شامل تھا، حکومت اسے 700 ارب روپے سے کم کرکے 343 ارب روپے پرلے آئی ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ 343 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جارہے ہیں، یہ چھوٹ تھیں جنہیں ختم کیا جارہاہے،

وزیرخزانہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مشینیری اورآلات پر 112 ارب روپے، فارما پر160 ارب روپے جبکہ باقی شعبوں کیلئے 71 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کی جارہی ہے، مشینیری کا ٹیکس ری فنڈایبل اورایڈجسٹبل ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ مشینیری یا فارما کی صنعت ٹیکس تو دے گی لیکن یہ ری فنڈ یا ایڈجسٹ ہوسکے گا، اس کی ری فنڈ کی مدت 7 یوم ہے، اگراس مدت میں ری فنڈ نہیں ہوتا تویہ سیلزٹیکس یا انکم ٹیکس کی صورت میں ایڈجسٹ ہوجائیگا۔

وزیرخزانہ نے کہاکہ تاجروں اورصنعت کاروں نے اس اقدام کی حمایت کی ہے، اورانہوں نے ہمیں بتایا ہے کہ ملکی تاریخ میں ایسا نہیں ہواہے۔سیلزٹیکس ری فنڈ اس وقت 48 گھنٹے کے اندردیا جارہاہے۔وزیرخزانہ نے کہاکہ 71 ارب کی دیگرٹیکس چھوٹ کا تعلق پرتعیش اشیا سے ہیں، اس میں لگژری اشیا اورامپورٹڈ اشیا جسے سائیکل،سائمن فش، بیکری اشیاء، اوردرآمد شدہ ساسجز شامل ہیں۔

وزیرخزانہ نے کہاکہ عام آدمی پرصرف 2 ارب روپے کے ٹیکس عائد ہورہے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ضمنی مالیاتی بل کے حوالہ سےجو افواہیں پھیلائی جارہی ہے وہ کھودا پہاڑ اورنکلا چوہا والی جیسی صورتحال ہے۔پرسنل کمپوٹر، سلائی مشین، ماچس اورسرخ مرچ جیسی اشیا پر2 ارب کی ٹیکس چھوٹ ختم کردی گئی ہے،اسلئے ضمنی مالیاتی بل سے مہنگائی کے حوالہ سے خدشات بے بنیاد اورحقائق کے منافی ہے۔

وزیرخزانہ نے کہاکہ یہ ساری کارروائی معیشت کودستاویزی بنانے کیلئے کی جارہی ہے، جو لوگ اپنے کاروبارکودستاویزی بنائیں گے ان کوٹیکسوں اور ری فنڈ میں ریلیف ملیگا۔ انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں اشیائے خوراک پرٹیکس چھوٹ کے خاتمہ کے حوالہ سے ہماری لڑائی ہوئی ہے،ہم نے آئی ایم ایف پرواضح کیاکہ ٹیکس دینے والوں پرہم مزیدٹیکس نہیں لگائیں گے،ہم نے پراویڈنٹ فنڈ پرٹیکس کوبھی نکال دیاہے،گندم، چاول، تازہ پھل اورسبزیاں، دودھ، گنا اورخوراک کی دیگراشیا پرکوئی سیلزٹیکس نہیں لگے گا۔

اسی طرح ٹریکٹر، کھادوں، زرعی مداخل، کیڑے مارادوایات، پرانے کپڑے اورسینما کے آلات پربھی ٹیکس نہیں ہوگا۔وزیرخزانہ نے کہاکہ اپوزیشن اورسوشل میڈیا پرجو واویلا مچایا جارہاہے اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔جی ایس ٹی کا ہدف 3 ہزار ارب روپے تک ہے، اس میں دو ارب روپے سے کونساطوفان آجائیگا۔عام آدمی پرکوئی بوجھ نہیں پڑے گا اورنہ ہی اس سے مہنگائی آئیگی۔

سٹیٹ بینک کی خودمختاری سے متعلق گفتگوکرتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہاکہ اداروں کومضبوط بنانا پی ٹی آئی کے منشورکاحصہ ہے، جب تک آپ اداروں کواختیارات نہیں دیں گے، مداخلت کریں گے تو ادارے مضبوط نہیں ہوں گے، آئی ایم ایف کی جانب سے ہمیں بتایا گیا کہ سٹیٹ بینک کوبری طرح سے استعمال کیا جارہاہے،

ماضی میں حکومتیں سٹیٹ بینک سے صفرشرح سود پرقرضے لیتی رہی جو نوٹ چھاپنے کے برابرہے،پی ٹی آئی کی حکومت جب برسراقتدارآئی توحکومت پرسٹیٹ بینک کے قرضے کاحجم 7 ٹریلین روپے تھا، اس وقت اس قرضہ کاحجم 6.4 ٹریلین روپے ہے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ موجودہ حکومت نے سٹیٹ بینک سے ایک روپیہ قرضہ نہیں لیا، حکومت نے پارلیمان میں پیش کردہ بل میں سٹیٹ بینک کوانتظامی طورپرآزادکرنے کا کہاہے، سٹیٹ بینک کی اتھارٹی بینک کے بورڈ آف گورنرز کودینے کی تجویز ہے،

بورڈ آف گورنرز کی سفارشات حکومت کے پاس آئیگی، بورڈ کی تشکیل حکومت کرے گی۔ انہوں نے کہاکہ سٹیٹ بینک کے بل سے بینک کوپارلیمان اورکمیٹوں کے سامنے جوابدہ بنایا گیاہے، اس بل کے ذریعہ پارلیمان کی خودمختاری کوتقویت دی گئی ہے،بل سے قبل بینک کے حکام کونیب اوردیگراداروں سے امیونٹی کی بات کی گئی تھی لیکن ہم نے اس کی مخالفت کی یہ آئین کے خلاف ہے، انہوں نے کہاکہ سٹیٹ بینک بل کے حوالہ سے سوشل میڈیا پرجو کچھ چل رہاہے وہ محض افواہیں ہیں اوریہ کوئی معنی نہیں رکھتے۔دنیا بھرمیں سینٹرل بینکس آزاد ہوتے ہیں، دنیا بھرکی اچھی معیشتوں میں سینٹرل بینکس خودمختارہوتے ہیں۔

مہنگائی کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ خوردنی تیل، پیٹرول، کوئلہ اورسٹیل کی بین الاقوامی قیمتیں بڑھی ہے، دنیا بھر میں ان اشیا کی قیمتوں میں اضافہ سے مہنگائی بڑھی ہے، پاکستان بھی ان اشیا کی قیمتوں میں اضافہ سے متاثرہواہے، بین الاقوامی مارکیٹ میں خوردنی تیل، پیٹرول، کوئلہ اورسٹیل کی قیمتیں کم ہونے سے پاکستان میں بھی مہنگائی کی شرح میں کمی آئیگی۔انہوں نے کہاکہ حکومت مہنگائی کے مقامی عوامل پرقابوپانے کی کوشش کررہی ہے، اس وقت کئی سبزیوں اورپھلوں کی قیمت گزشتہ سال کے مقابلہ میں 20 سے لیکر30 فیصد تک کم ہے۔