اسلام آباد ۔ 12 جون (اے پی پی) آئندہ مالی سال 2020-21ءکا 7137 ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ پیش کردیا گیا، کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا، این ایف سی ایوارڈ کے تحت 2874 ارب روپے کا ریونیو صوبوں کو منتقل کیا جائے گا‘ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 7 فیصد رہنے کا امکان ہے، سماجی تحفظ کا پروگرام 187 ارب سے بڑھا کر 208 ارب روپے کر دیا گیا، توانائی، خوراک اور دیگر شعبوں میں سبسڈی کےلئے 179 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، محصولات کا ہدف 6573 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، سیلز ٹیکس کی شرح 14 فیصد سے کم کرکے 12 فیصد کر دی گئی، سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 2روپے سے کم کرکے 1روپے 75 پیسے کردی گئی، پاکستان میں بنائے جانے والے موبائل فونز پر سیلز ٹیکس میں کمی کی گئی ہے‘ درآمدات پر انکم ٹیکس کی شرح کو خام مال پر 5.5 فیصد سے کم کرکے 2 فیصد اور مشینری پر ٹیکس 5.5 فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کیا گیا ہے‘ کم سے کم تنخواہ 15 ہزار سے بڑھا کر 25 ہزار کردی گئی‘ موٹرسائیکل رکشہ اور 200 سی سی تک موٹرسائیکل پر ایڈوانس ٹیکس ختم کردیا گیا‘ ٹیکس ادا نہ کرنے والے ایسے افراد جو سکول کی سالانہ فیس 2 لاکھ روپے سے زائد ادا کرتے ہیں ان سے سو فیصد زائد ٹیکس وصول کرنے کی تجویز ہے‘ ڈبل کیبن پک اپ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے‘ انرجی ڈرنکس پر ایف ای ڈی 13 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد‘ درآمدی سگریٹس‘ بیڑی ‘ سگار اور تمباکو کی دیگر اشیاءپر عائد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 65 فیصد سے بڑھا کر 100 فیصد کرنے کی تجویز ہے‘ کوویڈ 19 سے متعلقہ صحت کے ساز و سامان کی درآمد پر جاری استثنیٰ مزید تین ماہ کے لئے توسیع دی گئی ہے، آئندہ مالی سال کے دوران جی ڈی پی کی شرح نمو کو -0.4 فیصد سے بڑھا کر 2.1 فیصد پر لایا جائے گا، کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ کو 4.4 فیصد تک محدود رکھا جائے گا، افراط زر کی شرح 9.1 فیصد سے کم کرکے 6.5 فیصد تک لائی جائے گی، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 25 فیصد تک کا اضافہ کیا جائے گا،سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنروں کی پنشن میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا‘ جمعہ کو قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ 2020-21ءپیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا دوسرا سالانہ بجٹ پیش کرنا ان کیلئے بڑے اعزاز اور مسرت کی بات ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی مثالی قیادت میں اگست 2018ءمیں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ ہم نے مشکل سفر سے ابتدا کی اور معیشت کی بحالی کیلئے اپنی کاوشیں شروع کیں تاکہ وسط مدت میں معاشی استحکام اور شرح نمو میں بہتری لائی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری معاشی پالیسیوں کا مقصد اس وعدے کی تکمیل ہے جو ہم نے ”نیا پاکستان“ بنانے کیلئے عوام سے کر رکھا ہے۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران ہمارے رہنما اصول رہے ہیں کہ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے، سرکاری اداروں میں زیادہ شفافیت لائی جائے اور احتساب کا عمل جاری رکھا جائے اور ہر سطح پر فیصلہ سازی کے عمل میں میرت پر عملدرآمد کیا جائے۔ ہمارا بنیادی مقصد معیشت کی بحالی اور اسلامی جمہوری پاکستان کو مستحکم و مضبوط معیشت کے راستے پر گازمن کرنا ہے تاکہ ان منازل و مقاصد کو حاصل کیا جاسکے جن کا خواب ہمارے وطن عزیز کے بانیوں نے دیکھا تھا۔ ہمیں ان کے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف سماجی انصاف کی فراہمی، معاشرے کے کزور اور پسماندہ طبقات کی حالت بہتر بنانے کے اصول پر کاربند ہے اور مفلسی و غربت میں پسے ہوئے ہم وطنوں کیلئے کام کرنے کا عزم رکھتی ہے، یہی ہمارا وژن اور رہنما اصول ہے۔ حماد اظہر نے کہا کہ اگلے مالی سال کیلئے بجٹ پیش کرنے سے قبل وہ اس معزز ایوان کو آگاہ کرنا چاہیں گے کہ جب 2018ءمیں ہماری حکومت آئی تو ہمیں معاشی بحران ورثہ میں ملا۔ ایوان کے معزز ارکان کو یاد ہوگا کہ اس وقت ملکی قرض پانچ سالوں میں دگنا ہوکر 31 ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا تھا جس پر سود کی رقم کی ادائیگی ناقابل برداشت ہوچکی تھی۔ جاری کھاتوں کا خسارہ 20 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا تھا۔ تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر کی حد تک پہنچ چکا تھا جبکہ گزشتہ پانچ سالوں میں برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ پاکستانی روپے کی قدر کو غیر حقیقی اور مصنوعی طریقے سے بلند سطح پر رکھا جس سے برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہوا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 18 ارب ڈالر سے گھٹ کر 10 ارب ڈالر سے کم رہ گئے تھے جس کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب آگیا تھا۔ بجٹ خسارہ 2,300 ارب روپے کی بلند سطح پر پہنچ چکا تھا۔ ناقص پالیسیوں اور بدانتظامی کے باعث بجلی کا گردشی قرضہ 485 ارب کی ادائیگی کے باوجود 1200 ارب روپے کی انتہائی حد تک پہنچ چکا تھا جس کا بوجھ عوام پر ڈالا گیا۔ سرکاری اداروں کی تعمیرنو نہ ہونے سے ان کو 1300 ارب روپے سے زائد نقصانات کا سامنا تھا۔ اسٹیٹ بینک سے بے تحاشا قرضہ جات لئے گئے جس سے بینکاری نظام کو شدید نقصان پہنچا۔ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کیلئے مالی معاونت کی روک تھام کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے تھے جس کی وجہ سے پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مالی سال 2019-20ءکا آغاز پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کردہ اہداف کو حاصل کرنے کیلئے کیا۔ جس کیلئے ہم نے موزوں فیصلے اور اقدامات اٹھائے جس سے معیشت کو استحکام ملا۔ نتیجتاً مالی سال 2019-20ءکے پہلے 9 ماہ کے دوران 2018-19ءکے اسی عرصہ کے مقابلے میں اہم معاشی اشاریوں میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی۔ رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں جاری کھاتوں کے خسارے کو 73 فیصد کم کیا گیا جو 10 ارب ڈالر سے گھٹ کر 3 ارب ڈالر رہ گیا۔ اس مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں بجٹ کا خسارہ 5 فیصد سے کم ہو کر 3.8 فیصد رہ گیا۔ گزشتہ 10 سالوں میں پہلی بار پرائمری سرپلس مثبت ہو کر جی ڈی پی کے 0.4 فیصد تک رہا۔ اس مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں ایف بی آر کے ریونیو میں 17 فیصد کا اضافہ ہوا اور ہم 4,800 ارب کا بڑا ہدف حاصل کرنے کی پوزیشن میں تھے۔ نان ٹیکس ریونیو میں 134 فیصد کا اضافہ ہوا اور ہم اس مالی سال میں 1162 ارب کے ہدف کے مقابلے میں 1600 ارب کا ریونیو حاصل کریں گے۔ حکومت نے 6 ارب ڈالر کے بیرونی قرضہ کی ادائیگی کی جبکہ گزشتہ سال کے اسی عرصہ میں ادائیگی 4 ارب ڈالر تھی۔ اس ادائیگی کے بعد بھی زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم پر رہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ ماضی کے بھاری قرضوں کی وجہ سے ہم نے اپنے دو سالہ دور حکومت میں 5000 ارب کا سود ادا کیا ہے۔ جس سے خزانے پر غیر معمولی بوجھ پڑا ہے، ہم نے خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کیلئے 152 ارب کا تاریخی پیکیج دیا ہے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں تقریباً دس لاکھ پاکستانیوں کیلئے بیرون ملک ملازمت کے مواقع پیدا کئے گئے جس سے ترسیلات زر 16 ارب ڈالر سے بڑھ کر 17 ارب ڈالر ہو گئیں۔ بیرونی براہ راست سرمایہ کاری 0.9 ارب ڈالر سے تقریباً دگنی ہو کر 2.15 ارب ڈالر ہو گئی۔ 74 فیصد اندرونی قرضہ جات کو طویل المیعادی قرضہ جات میں تبدیل کیا گیا جس کی وجہ سے لاگت 14 فیصد سے کم ہو کر 10 فیصد ہو گئی۔ ہمارے اصلاحاتی پروگرام کو سراہتے ہوئے آئی ایم ایف نے 6 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت کی منظوری دی۔ مشہور بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے ہماری معیشت کی درجہ بندی بی تھری نیگیٹو سے بہتر کرکے بی تھری پازیٹو قرار دی۔ بلومبرگ نے پاکستان سٹاک ایکسچینج کو دسمبر 2019ءنے دنیا کی بہترین مارکیٹس میں شمار کیا۔ حکومت کے جن معاشی فیصلوں کے نتیجہ میں مالیاتی استحکام پیدا ہوا۔ بجٹ فنانسنگ کیلئے سٹیٹ بینک آف پاکستان سے ادھار لینے کا سلسلہ بند کر دیا گیا۔ ایکسچینج ریٹ کو غیر حقیقت پسندانہ حکومتی کنٹرول سے آزاد کرکے مارکیٹ کیلئے مفید کیا گیا۔ اس فیصلہ سے زرمبادلہ کی منڈی میں استحکام پیداہوا اورزرمبادلہ کی عدم دستیابی کا مسئلہ حل کرنے میں مدد ملی، کوئی ضمنی گرانٹس نہیں دی گئیں۔ ترقیاتی اخراجات کی راہ میں حائل سرخ فیتے کی رکاوٹ کو ختم کر کے تعمیر و ترقی کیلئے سہولت پیدا کی گئی۔ قرضے کے انتظام میں بہتری لائی گئی، جس سے 240 ارب روپے کی بچت ہوئی۔ سٹاک آف پبلک گارنٹیز میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے اور نقصانات میں کمی لانے کیلئے سٹرکچرل ریفارمز شروع کی گئیں اور جہاں ناگزیر تھا شفاف انداز سے ان کی نجکاری کا آغاز کیا۔ نومبر 2019ءمیں نیشنل ٹیرف پالیسی کی منظوری دی گئی جس کا مقصد ہماری مصنوعات کی عالمی منڈی میں دیگر ممالک کی مصنوعات کے مقابلے میں بہتری لانا، روزگار میں اضافہ کرنا اور ٹیرف سٹرکچر میں پائی جانے والی خرابیوں اور سقم کو دور کرنا تھا۔ میڈ ان پاکستان کے نام کے ساتھ پاکستانی مصنوعات کو عالمی منڈیوں میں متعارف کرایا گیا ہے۔ توانائی کے شعبے میں بہتری لانے اور نقصانات کو کم کرنے کیلئے اصلاحات کی گئیں۔کاروباری طبقے کو اس سال 254 ارب روپے کے ریفنڈ جاری کئے گئے جو گزشتہ سال کے 113 ارب روپے کے مقابلے میں 125 فیصد زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ وزارت تجارت کو ڈی ایل ٹی ایل کلیمز کی ادائیگی کیلئے 35 ارب روپے فراہم کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے تمام اہم شعبوں میں شفافیت، صلاحیت اور احتساب کے عمل میں بہتری لانے کیلئے ڈھانچہ جاتی اصلاحات شروع کیں۔ ہم نے پبلک فنانس کے بہتر انتظام کیلئے دور رس اصلاحات کا عمل شروع کیا ہے۔ ان اصلاحات سے وفاقی حکومت کی فنانشل مینجمنٹ میں زیادہ شفافیت اور بہتری آئی ہے۔ پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019ءکا نفاذ کیا گیا ہے جس کے تحت پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ حکومت نے پی ایف ایم ایکٹ کے تحت بجٹ سٹرٹیجی پیپر کابینہ اور قومی اسمبلی میں پیش کیا اور پہلی مرتبہ سالانہ بجٹ گوشوارہ کے ساتھ کنٹیجنٹ لائبلٹیز اور فسکل رسک کے گوشوارے بھی پارلیمنٹ میں پیش کئے جائیں گے۔ ٹریژری سنگل اکاﺅنٹ کے نفاذ کیلئے قواعد و ضوابط منظوری کے آخری مرحلہ میں ہیں۔ پنشن کے نظام میں اصلاحات لائی گئیں جس سے پنشن کی ادائیگی خود کار نظام سے ہو رہی ہے۔ اس سے تقریباً 20 ارب روپے کی بچت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ کفایت شعاری اور حکومتی اداروں کی تنظیم نو کیلئے وزیراعظم عمران خان نے ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں سرکاری اداروں میں کفایت شعاری اور ان کی تنظیم نو کیلئے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جو سرکاری اور نجی شعبے کے ماہرین پرمشتمل ہے۔ اس ٹاسک فورس نے اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے جس میں 43 اداروں کی نجکاری ، 8 غیر فعال اداروں کو ختم کرنے، 14 اداروں کی صوبوں کو منتقلی کرنے اور 35 اداروں کو دوسرے اداروں میں ضم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس تنظیم نو سے وفاقی حکومت کے غیر پیداواری مالیاتی بوجھ کو کم کیا جا سکے گا۔ احساس کے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل نو کر کے شفافیت لائی گئی جس سے 8 لاکھ 20 ہزار جعلی بینفشریز کو مستحقین کی فہرست سے نکالا گیا مزید برآں ڈیٹا پاکستان پورٹل کا آغاز کیا گیا جس سے ادائیگیوں کے نظام میں مزید بہتری لائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ آر ایل این جی ٹو پلانٹس جو بند ہونے کے قریب تھے ان کی بحالی کیلئے ٹھوس اقدامات کئے گئے ہیں جس سے ان کی کارکردگی میں قابل قدر بہتری آئی ہے۔ اس کے علاوہ کلیدی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا گیا۔ این ایچ اے، پاکستان پوسٹ اور کراچی پورٹ ٹرسٹ جیسے ادہم اداروں کی آمدن میں بالترتیب 70 فیصد، 50 فیصد اور 17 فیصد اضافہ کیا گیا اور ان کی استطاعت ، کارکردگی اور شفافیت میں بہتری لائی گئی۔ ہم نے کاروبار اور صنعت کو ترقی دینے اوربیرونی سرمایہ کاری کا رخ پاکستان کی طرف موڑنے کیلئے کاروبار میں آسانی کئی اقدامات اٹھائے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان میں کاروبار کرنے کی رینکنگ میں پوری دنیا کے 190 ممالک میں 136 ویں نمبر سے بہتری حاصل کر کے 108 ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے اور انشاءاللہ اس میں مزید بہتری آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ جون 2018ءمیں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا تھا اور ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان کے 27 قابل عمل نکات پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا گیا۔ ہماری حکومت نے اپنی اے ایم ایل/سی ایف ٹی رجیم کو بہتر بنانے کیلئے زبردست کاوشیں کیں تاکہ ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان کے تقاضوں کو پورا کیا جا سکے۔ اس ضمن میں وفاقی حکومت نے قومی اور بین الاقوامی اے ایم ایل/سی ایف ٹی سرگرمیوں اور حکمت عملی کی تشکیل اور نفاذ کیلئے نیشنل ایف اے ٹی ایف رابطہ کمیٹی کی سربراہی مجھے سونپی ہے۔ جامع قسم کی قانونی تکنیکی اور انتظامی اصلاحات شروع کی گئی ہیں، ان اقدامات سے پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ بہتر ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان کے 27 قابل عمل نکات کے سلسلہ میں ہم نے نمایاں پیشرفت کی ہے۔ ایک سال کے عرصہ میں 14 نکات پر مکمل عمل کیا گیا ہے اور 11 پر جزوی طور پر عمل درآمد کیا گیا ہے جبکہ دو شعبوں میں عمل درآمد کیلئے زبردست کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے کورونا وائرس نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے دنیا کو سنگین سماجی و معاشی مشکلات کا سامنا ہے، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کیلئے یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ پہلے تو اسے انسانی صحت کیلئے مسئلہ سمجھا گیا لیکن جلد ہی اس کے معاشی اور سماجی مضمرات بھی سامنے آئے۔ پاکستان بھی کورونا کے اثرات سے محفوظ نہیں رہا اور ہم نے معیشت کے استحکام کیلئے جو کاوشیں اور محنت کی تھی اس آفت سے ان کو شدید دھچکا لگا ہے۔ اس مشکل وفقت میں عوام کی زندگی کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے جس کیلئے ایسے اقدامات اور فیصلے کئے جا رہے ہیں جن سے لوگوں کی زندگی اور ذریعہ معاش کم سے کم متاثر ہو۔ انہوں نے کہا کہ طویل لاک ڈاﺅن، ملک بھر میں کاروبار کی بندش، سفری پابندیوں اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے نتیجہ میں معاشی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں جس کی وجہ سے جی ڈی پی کی شرح نمو اور سرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ بے روزگاری بڑھنے سے ترقی پذیر ممالک میں غربت میں مزید اضافہ ہوا ہے جس سے پاکستان بھی نہ بچ سکا۔ انہوں نے کہا کہ مالی سال 2019-20ءکے دوران پاکستان پر کورونا کے جو فوری اثرات ظاہر ہوئے ہیں ان کی وجہ سے تقریباً تمام صنعتیں اور کاروبار بری طرح متاثر ہوئے۔ جی ڈی پی میں اندازاً 3300 ارب روپے کی کمی ہوئی جس سے اس کی شرح نمو 3.3 فیصد سے کم ہو کر 0.4 فیصد تک رہ گئی۔ مجموعی بجٹ خسارہ جو جی ڈی پی کا 7.1 فیصد تک تھا، 9.1 فیصد تک بڑھ گیا۔ایف بی آر محصولات میں کمی کا اندازہ 900 ارب روپے ہے۔ وفاقی حکومت کا نان ٹیکس ریونیو 102 ارب روپے کم ہوا ہے۔ برآمدات اور ترسیلات زر بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں اور بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اﷲ کے کرم سے اس سماجی و معاشی چیلنج کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہے۔ اس مقصد کیلئے معاشرے کے کمزور طبقے اور شدید متاثر کاروباری طبقے کی طرف حکومت نے مدد کا ہاتھ بڑھایا ہے تاکہ کاروبار کی بندش اور بے روزگاری کے منفی اثرات کا ازالہ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا کے اثرات کے تدارک کیلئے حکومت نے 1200 ارب روپے سے زائد کے پیکیج کی منظوری دی ہے۔ مجموعی طور پر 875 ارب روپے کی رقم وفاقی بجٹ سے فراہم کی گئی ہے۔ طبی آلات کی خریداری، حفاظتی لباس اور طبی شعبے کیلئے 75 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ 150 ارب روپے ایک کروڑ 60 لاکھ کمزور اور غریب خاندانوں اور پناہ گاہوں کیلئے مختص کئے ہیں۔ 200 ارب روپے روزانہ اجرت کمانے والے ورکرز/ملازمین کو کیش ٹرانسفر کیلئے مختص کئے ہیں۔ 50 ارب روپے یوٹیلٹی سٹورز پر رعایتی نرخوں رپ اشیاءکی فراہمی کیلئے مختص کئے ہیں۔ 100 ارب روپے ایف بی آر اور وزارت تجارت کیلئے مختص تھے تاکہ وہ برآمد کنندگان کو ریفنڈ کا اجراءکرے۔ 100 ارب روپے بجلی اور گیس کے مو¿خر شدہ بلوں کیلئے مختص ہیں۔ وزیراعظم نے چھوٹے کاروبار کیلئے خصوصی پیکیج دیا جس کے تحت ٰتقریباً 30 لاکھ کاروباروں کے 3 ماہ کے بجلی کے بل کی ادائیگی کیلئے 50 ارب فراہم کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کو سستی کھاد، قرضوں کی معافی اور دیگر ریلیف کیلئے 50 ارب کی رقم دی گئی، 100 ارب روپے ایمرجنسی فنڈ قائم کرنے کیلئے مختص ہیں۔ اس پیکیج سے وفاقی حکومت کے اخراجات میں اضافہ ہو گیا جس کےلئے وفاقی حکومت کو سپلیمنٹری گرانٹس کی منظوری دینا پڑی۔ فنانس ڈویژن نے معتلقہ اداروں خاص طور پر احساس، این ڈی ایم اے، یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن اور ایف بی آر کیلئے فنڈز کا بندوبست اور اجراءکیا ہم ان اداروں کی پیکیج پر عملدرآمد کرنے کے سلسلہ میں بجا لائی گئی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے کسانوں اور عام آدمی کا احساس کرتے ہوئے ریلیف کے اقدامات کئے ہیں جس کیلئے انہیں خوراک اور طبی ساز و سامان کی مد میں 15 ارب روپے کی ٹیکس کی چھوٹ دی۔ 280 ارب روپے کسانوں کو گندم کی خریداری کی مد میں ادا کئے گئے۔ پٹرول کی قیمتوں میں 42 روپے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمتوں میں 47 روپے فی لیٹر تک کی کمی کر کے پاکستان کے عوام کو 70 ارب روپے کا ریلیف دیا گیا۔ معیشت کی بحالی کیلئے ہم نے تعمیراتی شعبے اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کیلئے رعایتی ٹیکس نظام متعارف کرا کر تاریخی مراعات بھی دی ہیں۔ فکسڈ ٹیکس نظام وضع کیا۔ بلڈرز اور ڈویلپرز (سوائے سٹیل اور سیمنٹ کی خریداریوں کے) ود ہولڈنگ ٹیکس میں چھوٹ دی ہے تاکہ عوام کو سستے گھر میسر ہو سکیں۔ آمدنی کا ذریعہ نہیں پوچھا جائے گا، خاندان کیلئے ایک گھر پر کیپٹل گین ٹیکس کی چھوٹ ہو گی، سستی رہائشوں کی تعمیر پر 90 فیصد ٹیکس ختم کیا گیا ہے، تعمیرات کو صنعت کا درجہ دیا گیا ہے۔ لاک ڈاﺅن کے برے اثرات کے ازالے کیلئے سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی بہت سے اقدامات متعارق کرائے ہیں۔ پالیسی ریٹ میں 5.25 فیصد کی بڑی کمی کی گئی ہے جو 13.25 فیصد سے کم ہو کر 8 فیصد رہ گیا ہے۔ii۔ کاروبار کے پے رول لون میں تین ماہ کیلئے 96 ارب کی رقم 4 فیصد کم شرچ سود پر فراہم کی گئی ہے تاکہ بیروزگاری سے بچا جا سکے۔سات لاکھ 75 ہزار قرض خواہوں کو 491 ارب کے اصل قرض کی ادائیگی ایک سال کیلئے موخر کرکے سہولت بہم پہنچائی ہے اور 75 ارب کا قرض ری شیڈول کیا گیا ہے۔ انفرادی اور کاروباری قرضوں کے لئے بینکوں کو اضافی 800 ارب روپے قرض دینے کی اجازت دی گئی ہے جس کیلئے قرض کی حد میں اضاضہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ درآمدات اور برآمدات کے حوالہ سے بھی اقدامات کئے گئے ہیں۔ پرفارمنس ریکوائرمنٹ کو پورا کرنے کیلئے مدت میں توسیع دی گئی ہے۔ مال کی ترسیل کیلئے اوقات کار صبح 6 سے رات 12 بجے کر دیئے گئے ہیں۔ طویل مدتی قرضوں کے حصول کیلئے شرائط میں نرمی کی گئی ہے۔ برآمدات سے حاصل زر مبادلہ کی وصولی کا وقت 270 دن تک بڑھا دیا گیا ہے۔ برآمد کنندگان براہ راست شپنگ دستاویزات کی ترسیل کر سکتے ہیں۔ درآمدات کیلئے پیشگی ادائیگیوں کی حد بڑھا کر سہولت دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگلے سال بجٹ کی تفصیل کے مطابق کورونا سے پیدا شدہ مشکلات کے تناظر میں یہ بجٹ اس بحرانی صورتحال سے نبٹنے کیلئے تشکیل دیا گیا ہے۔ معیشت کی رفتار کم ہونے کا خدشہ ہے جس کیلئے توسیعی مالیاتی پالیسی کی ضرورت ہے۔ بجٹ 2020-21ءکی حکمت عملی کے نمایاں خدوحال کے مطابق عوام کو ریلیف پہنچانے کیلئے اس بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانا۔ مجوزہ ٹیکس مراعات معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گی، کورونا اخراجات اور مالیاتی خسارے کے مابین توازن قائم رکھنا۔ پرائمری بیلنس کو مناسب سطح پر رکھنا۔ معاشرے کے کمزور اور پسماندہ طبقات کی مدد کیلئے احساس پروگرام کے تحت سماجی اخراجات کا عمل جاری رکھنا۔آئی ایم ایف پروگرام کو کامیابی سے جاری رکھنا، کورونا کی تباہ کاریوں سے نبٹنے کیلئے اگلے مالی سال میں بھی عوام کی مدد جاری رکھنا۔ ترقیاتی بجٹ کو موزوں سطح پر رکھنا تاکہ معاشی نمو میں اضافے کے مقاصد پورے ہوسکیں اور روزگار کے مواقع پیدا ہوسکیں۔ ملک کے دفاع اور داخلی تحفظ کو خاطر خواہ اہیمت دی گئی ہے۔ ٹیکسوں میں غیر ضروری ردوبدل کے بغیر محاصل کی وصولی میں بہتری لانا۔ تعمیراتی شعبے کیلئے مراعات بشمول نیا پاکستان ہاﺅسنگ پراجیکٹ کیلئے وسائل مختص کئے گئے ہیں۔ خصوصی علاقوں یعنی سابقہ فاٹا ، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کیلئے بھی فنڈز رکھے گئے ہیں تاکہ وہاں ترقی اور معاشی نمو کا عمل یقینی بنے۔ وزیراعظم کی قیادت میں خصوصی اقدامات اور پروگراموں مثلاً کامیاب جوان، صحت کارڈ، بلین ٹری سونامی وغیرہ کا بھی تحفظ کیا گیا ہے۔ کفایت شعاری اور غیر ضروری اخراجات میں کمی یقینی بنائی جائے گی۔ معاشرے کے مستحق طبقات کو سبسڈی دینے کیلئے سبسڈی نظام کو بہتر کیا جائے گا۔ ایوارڈ پر نظرثانی کی جائے گی اور سابقہ فاٹا کے علاقوں کے خیبر پختونخواہ میں انضمام کے وقت صوبوں نے مالی اعانت کے جو وعدے کئے تھے ان کو پورا کرنے کیلئے رابطے تیز کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ کا اعدادوشمار کے مطابق کل ریونیو کا تخمینہ 6,573 ارب روپے ہے جس میں ایف بی آر ریونیو 4,963 ارب روپے اور نان ٹیکس ریونیو 1,610 ارب روپے شامل ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کے تحت 2,874 ارب روپے کا ریونیو وصوبوں کو ٹرانسفر کیا جائے گا۔نیٹ وفاقی ریونیو کا تخمینہ 3,700 ارب روپے ہے۔ کل وفاقی اخراجات کا تخمینہ 7,137 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ اس طرح بجٹ خسارہ 3,437 ارب روپے تک رہنے کی توقع ہے جو کہ جی ڈی پی کا 7 فیصد بنتا ہے اور پرائمری بیلنس 0.5 فیصد ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے کے غریب اور پسماندہ طبقات کی معاونت ہماری سب سے بڑی ترجیح ہے۔ اس کیلئے ایک مربوط نظام وضع کیا گیا ہے جس کے تحت تمام متعلقہ اداروں کو نئی تشکیل کردہ غربت کے خاتمہ و سماجی سکیورٹی ڈویژن بنا کر ضم کر دیا گیا ہے۔ احساس غریب پرور پروگرام کیلئے پچھلے سال 187 ارب روپے رکھے گئے تھے، اس کو بڑھا کر 208 ارب روپے کر دیئے گئے ہیں، جس میں سماجی تحفظ کے بہت سے پروگرام شامل ہیں جیسے بی آئی ایس پی، پاکستان بیت المال اور دیگر محکمے شامل ہیں۔ یہ مختص رقوم حکومت کی منظور کردہ پالیسی کے مطابق شفاف انداز سے ان طبقات پر خرچ کی جائیں گی۔ توانائی، خوراک اور دیگر شعبوں کو مختلف اقسام کی سبسڈیز دینے کیلئے 179 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے ۔ حکومت نے خاص طور پر پسماندہ طبقات کو امداد پہنچانے کیلئے سبسڈیز کا قبلہ درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم کےلئے وافر رقوم رکھی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں ایچ ای سی کی تخصیص میں جو 2019-20ءمیں 59 ارب روپے تھی بڑھا کر 64 ارب روپے کر دی گئی ہے۔ حماد اظہر نے کہا کہ حکومت نے عوام کو کم قیمت پر مکانات فراہم کرنے کےلئے نیا پاکستان ہاﺅسنگ اتھارٹی کو 30 ارب روپے فراہم کئے ہیں۔ مزید یہ کہ اخوت فاﺅنڈیشن کی قرضہ حسنہ اسکیم کے ذریعے کم لاگت رہائشی مکانات کی تعمیر کے لئے ڈیڑھ ارب مختص کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خصوصی علاقوں آزاد جموں و کشمیر کے لئے 55 ارب روپے اور گلگت بلتستان کے لئے 32 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کے لئے 56 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، سندھ کو 19 ارب روپے اور بلوچستان کو 10 ارب روپے کی خصوصی گرانٹ ان کے، این ایف سی حصے سے زائد فراہم کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترسیلات زر بڑھانے کیلئے مختلف اقدامات کئے گئے ہیں جس سے رقوم کی منتقلی بینکوں کے ذریعے بڑھانے کے لئے 25 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ پاکستان کے عوام کو سستی ٹرانسپورٹ سروسز فراہم کرنے کے لئے، پاکستان ریلوے کے لئے 40 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ہمیشہ پاکستان کو ترقی پسند ملک بنانے کے لئے نوجوانوں کے کردار پر زور دیا ہے۔ کامیاب نوجوان پروگرام نوجوانوں کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لئے حکومت کا خصوصی پروگرام ہے جس کے لئے 2 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاہور اور کراچی میں وفاقی حکومت کے زیر انتظام ہسپتالوں کے لئے 13 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ جن میں شیخ زید ہسپتال لاہور، جناح میڈیکل سنٹر کراچی اور دیگر چار ہسپتال شامل ہیں۔ ای گورننس کے ذریعے پبلک سروسز کی فراہمی کو بہتر بنانا وزیراعظم عمران خان کا وژن ہے۔ وزیراعظم صاحب کی خصوصی ہدایات پر، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے تمام وزارتوں اور ڈویژنز کو الیکٹرانک طور پر مربوط کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ اس منصوبے پر عملدرآمد کرنے کے لئے 1 ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فنکار ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ ان کی مالی امداد اور فلاح و بہبود کے لئے صدر پاکستان کی ہدایت پر حکومت نے آرٹسٹ ویلفیئر فنڈ کی رقم 25 کروڑ روپے سے بڑھا کر ایک ارب روپے کر دی ہے۔ مختلف اصلاحاتی پروگراموں کے لئے خصوصی فنڈز کا قیام کیا گیا ہے جن میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کےلئے وائیبلٹی گیپ فنڈ کے لئے 10 کروڑ روپے، ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن فنڈ کےلئے 40 کروڑ روپے اور پاکستان انوویشن فنڈ کے لئے 10 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زرعی شعبہ میں ریلیف پہنچانے کےلئے اور ٹڈی دل کی روک تھام کے لئے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ حکومت نے سال 2020-21ءکے دوران ہدف مقرر کیا ہے کہ جی ڈی پی کی شرح نمو کو -0.4 فیصد سے بڑھا کر 2.1 فیصد پر لایا جائے گا، کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ کو کو 4.4 فیصد تک محدود رکھا جائے گا، افراط زر کو یعنی مہنگائی 9.1 فیصد سے کم کر کے 6.5 فیصد تک لائی جائے گی، بیرونی براہ راست سرمایہ کاری میں 25 فیصد تک کا اضافہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ترقیاتی ایجنڈا پر عملدرآمد حکومت کے وژن کے مطابق جاری ہے تاکہ مستحکم معاشی شرح نمو کا حصول ممکن ہو سکے۔ غربت میں کمی، بنیادی انفراسٹرکچر میں بہتری اور خوراک، پانی و توانائی کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مجموعی ترقیاتی اخراجات 1,324 ارب روپے ہے۔ انہوں نے کہا کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام ترقایاتی مقاصد کو حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے جس کےلئے 650 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے مالی بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے، منصوبوں کی لاگت میں اضافے سے بچنے کے لئے جاری منصوبوں کے لئے 73 فیصد اور نئے منصوبوں کے لئے 27 فیصد رقم مختص کی گئی ہے۔ سماجی شعبے کے منصوبوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ جس کے لئے گزشتہ سال 206 ارب روپے کی رقم کو بڑھا کر 249 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019ءکی دفعات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا اور دیگر قدرتی آفات سے پیدا صورتحال سے نمٹنے کیلئے حکومت نے کورونا اور دیگر آفات کی وجہ سے انسانی زندگی پر پڑنے والے منفی اثرات کو زائل کرنے اور معیار زندگی بہتر بنانے کے لئے خصوصی ترقیاتی پروگرام وضع کیا ہے جس کے لئے 70 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی توجہ توانائی کی توسیعی منصوبوں اور بجلی کی ترسیل و تقسیم کا نظام بہتر بنانے اور گردشی قرضوں کو کم کرنے کی طرف مرکوز ہے۔ سپیشل اکنامک زونز کو بجلی کی فراہمی کے منصوبوں اور غیر ملکی امداد سے چلنے والے منصوبوں کی خاطر خواہ مالی وسائل رکھے گئے ہیں۔ اس ضمن میں حکومت نے 80 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ ان فنڈز کو خاص طور پر بجلی کی طلب اور پیداوار کے درمیان فرق کو ختم کرنے کے لئے رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پانی کے شدید بحران کا شکار ہے۔ اس سال، حکومت پانی سے متعلق منصوبوں پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور اس ضمن میں 69 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ کثیر المقاصد ڈیم بالخصوص دیامر بھاشا، مہمند اور داسو کےلئے خاطر خواہ مالی وسائل فراہم کئے گئے ہیں۔ ان منصوبوں سے زیادہ پانی ذخیرہ کرنے اور بجلی کی پیداوار بڑھانے کے ساتھ ساتھ 30 ہزار سے زائد روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ صنعتی رابطوں، تجارت و کاروبار کے فروغ کیلئے این ایچ اے کے تحت جاری منصوبوں کی تکمیل ترجیح دی گئی ہے۔ بالخصوص سی پیک کے تحت منصوبوں کو بشمول مغربی روٹ کیلئے وافر وسائل فراہم کئے گئے ہیں۔ اس سلسلہ میں 118 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اسی طرح ریلوے کے ایم ایل۔1 اور دیگر منصوبوں کیلئے 24 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ مواصلات کے دیگر منصوبوں کیلئے 37 ارب مختص کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے تناظر میں صحت کا شعبہ حکومت کی خصوصی ترجیح ہے اور بہتر طبی خدمات، وبائی بیماریوں کی روک تھام، طبی آلات کی تیاری اور صحت کے اداروں کی استعداد کار میں اضافہ کیلئے 20 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ کورونا کے علاج اور تدارک کے اقدامات کے علاوہ حکومت اپنی توجہ ہیلتھ سروسز کو بہتر بنانے کیلئے آئی سی ٹی سلوشنز کی طرف مرکوز کر رہی ہے۔ امید ہے صوبائی حکومتیں ان مقاصد کے حصول کیلئے اپنا کردار ادا کرتی رہیں گی۔ انہوں نے کہا کہ یکساں نصاب کی تیاری، معیاری نظام امتحانات وضع کرنے، سمارٹ سکولوں کے قیام اور مدرسوں کی قومی دھارے میں شمولیت کے ذریعے تعلیمی نظام میں بہتری لائی جائے گی جس کے منصوبوں کیلئے فنڈز مختص کر دیئے گئے ہیں۔ ان اصلاحات کیلئے 5 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ مزید برآں ہائیر ایجوکیشن حکومت کے ترجیحی شعبہ جات میں سے ایک ہے۔ 21ویں صدی کے کوالٹی ایجوکیشن چیلنجز پر پورا اترنے کیلئے تحقیق اور دیگر جدید شعبہ جات مثلاً آرٹیفیشل انٹیلیجنس، روبوٹکس، آٹومیشن اور سپیس ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں تحقیق اور ترقی کیلئے کام کیا جا سکے۔ لہٰذا تعلیم کے شعبے میں اس جدت اور بہتری کے حصول کیلئے 30 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایمرجنگ ٹیکنالوجیز اور نالج اکانومی کے اقدات کو فروغ دینے کیلئے محققین اور تحقیقی اداروں کی صلاحیتوں اور گنجائش کو بڑھانا اشد ضروری ہے۔ مزید برآں ای۔گورننس اور آئی ٹی کی بنیاد پر چلنے والی سروسز اور 5G سیلولر سروسز کے آغاز پر حکومت کی توجہ ہے۔ ان شعبوں میں پراجیکٹس کیلئے 20 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر کے تحت کیمیکل، الیکٹرونکس، Precision Agriculture کے منصوبوں پر عملدرآمد کیا جائے گا اور R & D کا صنعت کے ساتھ رابطہ مضبوط کیا جائے گا۔ انہوں نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالہ سے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر اور ماحول پر ظاہر ہونے والے اثرات کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان بھی اپنے آپ کو تیار کر رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے پاکستان پر بھی بہت سے اثرات ہیں جیسے غیر موسمی بارشیں، فصلوں کے پیداواری رجحان میں کمی اور سیلابوں کی تباہ کاریاں، اس سال موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے سے متعلق اقدامات کیلئے 6 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔ خصوصی علاقہ جات کے حوالہ سے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رواں بجٹ کے تحت مختص رقوم کے علاوہ حکومت نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں منصوبہ جات کیلئے 40 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز رکھے ہیں۔ علاوہ ازیں خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع میں مختلف پراجیکٹس کیلئے 48 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے۔ پائیدار ترقی اہداف کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کے تحت ترقیاتی بجٹ میں 24 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔ خوراک و زراعت کے شعبہ کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ تحفظ خوراک اور زراعت کے فروغ کیلئے ترقیاتی منصوبوں پر 12 ارب روپے کی رقم خرچ کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع میں TDPs کے انتظام و انصرام کیلئے 20 ارب روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے جبکہ افغانستان کی بحالی میں معاونت کیلئے 2 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ان مشکل حالات میں کفایت شعاری کے اصولوں پر کاربند ہے۔ ہم افواج پاکستان کے بھی مشکور ہیں کہ انہوں نے حکومت کی کفایت شعاری کی کوششوں میں بھرپور تعاون کیا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اپنی تقریر کے دوسرے حصے میں محصولات (Taxes) سے متعلقہ تجاویز پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 11فیصد ہے جو کہ ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ معاشی طاقت کا یہ اہم اشاریہ پچھلے 20سال سے اسی جگہ کھڑا ہے۔ اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ہم نے ایک اصلاحاتی عمل شروع کیا تھا جو ایک جامع (holistic) حکمت عملی پر مشتمل تھا جس میں پالیسی اور انتظامی اصلاحات شامل تھے تا کہ خرابیوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ محصولات (revenue)اکٹھا کرنے کے لئے مزید بہتر بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک ان کوششوں کے بہت عمدہ نتائج حاصل ہوئے ہیں جو کہ اچھے معاشی مستقبل کے ضامن ہیں۔ اس سال میں درج ذیل اہم کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔ معاشی ترقی کا درآمد کی بنیاد پر انحصار اب اندرونی ذرائع سے حاصل کردہ آمدن کی ترقی پر تبدیل ہو گیا ہے۔ تاریخ ریفنڈز ادا کیے گئے ہیں جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں 119فیصد زیادہ ہیں۔ پاکستان کی محدود ٹیکس میں Baseکو ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لا کر اور 6616ریٹیل آﺅٹ لیٹس پر پوائنٹ آف سیل (Point of sale) کی کامیاب تنصیب کے ذریعے مزید وسیع کیا گیا ہے جسے اس سال دسمبر تک 15000تک لے جانے کی کوشش ہے۔ کورونا کی وجہ سے عام دکانداروں کا کاروبار متاثر ہوا ہم نے Point of Saleپر سیلز ٹیکس کی شرح 14فیصد سے مزید کم کر کے 12فیصد کرنے کی تجویز دی جس سے عام افراد اور دکانداروں کو کاروبار میں مدد ملے گی اور معیشت کو دستاویزی شکل دینے میں آسانی ہو گی۔ وزیر صنعت و پیداوار نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے ہوٹل کی صنعت بہت متاثر ہوئی ہے ہم نے اس صنعت پر کم از کم ٹیکس کی شرح 1.5فیصد سے کم کر کے 0.5فیصد کرنے کی تجویز د یہے یہ چھوٹ اپریل سے ستمبر تک چھ ماہ کے لیے دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ افراد و تنخواہ دار طبقے کی سہولت کے لیے گوشوارہ کی موبائل اپیلیکیشن متعارف کروائی گئی ہے جس سے انکم ٹیکس گوشواروں میں 37فیصد اضافہ ہوا۔ ٹیکس جمع کروانے کا ایک خودکار نظام متعارف کروایا گیا۔ سمگلنگ اور قانونی عملدرآمد کی ایک کامیاب مہم چلائی گئی جس سے (Seizures) میں 19 سے 30ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کورونا سے قبل کے عرصے میں محصولات اکٹھا کرنے کی شرح بھی قابل تعریف رہی ہے۔ Domestic Taxes میں 27فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے کو کم کرنے کے لئے ہم نے غیرضروری درآمدات کا خاتمہ کیا۔ اس وجہ سے مالی سال 2020ءکے لئے ایف بی آر ریونیو ٹارگٹ جو کہ شروع میں 5503ارب روپے تھا، درآمدات کے سیکٹر کے باعث کم کر کے 4,801ارب کیا گیا۔ بعدازاں کورونا کی وباءنے نہ صرف پاکستان بلکہ تمام دنیا کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا۔ کورونا کی وباءکے بعد لاک ڈاﺅن اور معاشی سرگرمیوں کے کم ہونے کے باعث معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا اور بے روزگاری اور معاشی سست روی سے بچنے کے لئے وزیراعظم عمران خان نے 1200ارب روپے کے امدادی پیکج کا اعلان کیا۔ کورونا وباءکے باعث محصولات اکٹھا کرنے میں دشواری اور کمی کا سامنا کرنا پڑا جس کا تخمینہ تقریباً 900ارب روپے ہے۔ کورونا کے باعث ایف بی آر کے ٹارگٹ میں کمی کی گئی اور اب یہ ٹارگٹ 3900ارب روپے پر مقرر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی دوران چھوٹے اور درمیانے درجے کے تاجروں کے لئے ایک فکسڈ مراعات کا پیکج متعارف کروایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تعمیراتی سیکٹر کے لئے ایک تاریخی پیکج بھی متعارف کروایاگیا۔ اس پیکج کے بروقت اطلاق سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ دیہاڑی دار مزدور کے روزگار کا تحفظ، معاشی ترقی کی ترویج اور غیرمراعات یافتہ طبقے کو نیا پاکستان ہاﺅسنگ پروگرام کے تحت کم قیمت گھر فراہم کرے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم نے ایسی پالیسیاں تجویز کی ہیں جس سے معیشت کو دوبارہ اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور بالآخر جب معیشت عوامی تکلیف کو کم کرنے اور مطلوبہ عمومی فنانسز پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، پھر یہ مالی استحکام کی طرف جائے گی۔ بجٹ 2020-21کاروبار کو ناکامی سے بچانے اور غریب عوام کو مشکلات سے نکانے کے لیے تیار کیا گیا ہے، لہٰذا ہم ایسا بجٹ پیش کر رہے ہیں جسے ”ریلیف بجٹ“ کہا جا سکتا ہے اور مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ ہم نے اس بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا۔ وفاقی وزیر نے کسٹمز ایکٹ 1969 کے حوالے سے کہا کہ اب میں کسٹم ایکٹ 1969میں تجویز کردہ تبدیلیاں پیش کروں گا۔ مجھے یہ اعلان کرنے میں بے حد خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ ایکسپورٹ ریبیٹ کو بغیر کسی انسانی مداخلت کے ایکسپورٹر کے بینک اکاﺅنٹ میں براہ راست منتقلی کرنے کو خودکار بنایا جا رہا ہے۔ ریبیٹ سکیمز تقریباً ایک دہائی کے بعد تبدیل کی جارہی ہیں اور ریبیٹ کلیمز کو آسان تر بنایا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر نے ڈیوٹی فری خام مال کے حوالے سے کہا کہ گزشتہ سال اس حکومت نے کسٹم ٹیرف کی اصلاحات کی جامع مشرق کا آغاز کیا اور خام مال پر مشتمل 1600سے زیادہ ٹیرف لائنوں کو کسٹم ڈیوٹی سے مستثنیٰ کر دیا گیا۔ صنعتی شعبے کی لگائی جانے والی لاگت کو کم کرنے کے لئے یہ تجویز کیا جا رہا ہے کہ خام مال بھی مکمل طور پر تمام کسٹم ڈیوٹیوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ ان اشیاءکی فہرست میں کیمیکلز، لیدر، ٹیکسٹائل، ربڑ، کھاد میں استعمال ہونے والا خام مال شامل ہے۔ ان ٹیرف لائنوں میں قریب 20,000اشیاءشامل ہیں کو کل درآمدات کا 20فیصد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خام مال اور ثانوی اشیاءپر مشتمل 200ٹیرف لائنز پر عائد کسٹم ڈیوٹی کی شرح میں نمایاں کمی کی گئی ہے۔ ان اشیاءکی فہرست میں بلیجنگ، ربڑ، گھریلو اشیاءکا خام مال شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مقامی انجینئرنگ کے شعبے کی حوصلہ افزائی کے لئے ہاٹ رولڈ کوائلز پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی کو 12.5فیصد سے کم کر کے 6فیصد پر لانے کی تجویز دی جا رہی ہے۔ اس اقدام سے سٹیل پائپ، انڈر گراﺅنڈ ٹینک، بوائلر کی صنعت کو فروغ ملے گا۔ وفاقی وزیر نے اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی کے لئے تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں مختلف اشیاءپر prohibitiveریگولیٹری ڈیوٹی عائد ھی۔ اگرچہ اس پالیسی سے درآمدات کو کم کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی لیکن ان میں سے کچھ چیزیں افغانستان منتقل ہوئیں اور بعدازاں اسمگلنگ کے ذریعے واپس پاکستان آ گئیں۔ یہ تجویز پیش کی جا رہی ہے کہ مختلف اشیاءمثلاً کپڑے، سینٹر ویئر، الیکٹروڈز، کمبلوں، پیڈلاکس وغیرہ کو اسمگلنگ سے بچانے کے لئے ان پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی کو کم کیا جائے تا کہ اس بناءپر ضائع ہونے والے محصولات کو حاصل کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے کے غریب طبقے کے لئے مدد کے لئے پاکستان کی غریب عوام کی صحت سے متعلقہ اخراجات کو کم کرنے کے لئے کورونا وائرس اور کینسر کی ڈائیگناسٹک کٹس پر عائد تمام ڈیوٹیز اور ٹیکسز کو ختم کرنے کی تجویز دی جا رہی ہے۔ ایسے ہی جنیاتی مسائل میں مبتلا بچوں کے لئے خصوصی فوڈ سپلیمنٹس (پرہیزی غذا) کو تمام درآمدی مرحلے پر تمام ڈیوٹیز اور ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دینے کی تجویز دی جا رہی ہے تا کہ ان کی قیمت کو کم کیا جا سکے۔ سپلیمنٹری فوڈ بنانے میں استعمال ہونے والے خام مال پر عائد کسٹم ڈیوٹیز سے استثنیٰ کے حوالے سے وفاقی وزیر نے کہا کہ بچوں میں غذائیت کی کمی اور اس کے نتیجے میں نشوونما کا رکنا ہماری حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ بچوں اور حاملہ خواتین کے لئے سپلیمنٹری فوڈ اب پاکستان میں عالمی ادارہ صحت کے تحت تیار کی جا رہی ہے۔ اس پروگرام کے دائرہ کار کو مزید وسیع کرنے کے لئے ان سپلیمنٹری فوڈز میں استعمال ہونے والے خام مال کو کسٹم ڈیوٹیز سے مستثنی قرار دینے کی تجویز پیش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے Custom Authorityکے اختیارات میں کمی کے حوالے سے کہا کہ اسمگلنگ کی سزاﺅں کو عقلی اور جامع بنانے کے لئے کم سے کم سزا کے قانون کو متعارف کروانے کی تجویز ہے تا کہ کسٹم حکام اپنی مرضی سے سمگلنگ میں ملوث کسی شخص کو چھوڑ نہ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حکومت کی پالیسیز کی شفافیت اور ان کا قابل عمل ہونا سرمایہ کاری کو فروغ دیتا ہے۔ اسی بنیاد پر ایڈوانس رولنگ کے نظریے کو کسٹمز قوانین میں شامل کرنے کی تجویز دی جا رہی ہے جو کہ عالمی سطح کے بہترین طریقہ کار کے مطابق ہے۔ سیلز ٹیکس اور ایف ای ڈی (FED) کے حوالے سے تجاویز پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے ریلیف اقدامات کا ذکر کیا اور کہا کہ ٹیکس بیس کو بڑھانے کے لئے فنانس ایکٹ 2019میں قومی شناختی کارڈ کی شرط متعارف کروائی گئی تا کہ ان افراد کو جو ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں، انہیں ٹیکس کے دائرہ کار میں لایا جائے۔ تاہم عوام کی سہولت کے لئے عام خریدار کے لئے بغیر شناختی کارڈ خریداری کی حد 50ہزار سے بڑھا کر 1لاکھ روپے کرنے کی تجویز ہے۔ خصوصی پرہیزی غذا کی طبی مقاصد کے لئے درآمد پر استثنیٰ کے حوالے سے وفاقی وزیر نے کہا کہ منسٹری آف نیشنل ہیلتھ سروسز کی درخواست پر ایسے بچوں کے لئے جو وراثتی میٹابولک سینڈ روم میں مبتلا ہیں اور ان کا جسم خوراک کو ایک عام بچے کے جسم کی طرح پراسس نہیں کر سکتا، اس غذا کو خصوصی طبق مقاصد کے لئے درآمد کرنے پر استثنیٰ کی تجویز پیش کی جا رہی ہے۔ اس مقصد کے لئے سیلز ٹیکس ایکٹ 1990کے چھٹے شیڈول میں ایک نیا سیریل صرف درآمد پر استثنیٰ کے لئے شامل کیا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ کووڈ۔19 سے متعلقہ صحت کے سازوسامان (equipment) کی درآمد پر استثنیٰ میں توسیع کی جا رہی ہے، وفاقی حکومت نے صحت سے متعلقہ سازوسامان کی درآمد اور بعد ازاں فراہمی پر 20 مارچ 2020ءکو جاری کئے جانے والے ایس آر او 237 کے ذریعے تین ماہ کا استثنیٰ فراہم کیا۔ کورونا بیماری کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور وزارت صحت کی سفارشات کے پیش نظر استثنیٰ میں مزید تین ماہ کے توسیع کی تجویز پیش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بے ضابطگیوں کو دور کرنے اور سیلز ٹیکس ایکٹ 1990ءکے گیارہویں شیڈول کو بہتر کرنے کے لئے sales tax regime کے مو¿ثر اطلاق کیلئے یہ تجویز کیا جا رہا ہے کہ گیارہواں شیڈول تبدیل کیا جائے تاکہ غیر رجسٹرڈ یا نان ایکٹو ٹیکس پیئر (Non Active Taxpayer) سے ٹیکس کی وصولی یکمشت کی جا سکے۔ اس سے ملک میں ٹیکس فائل کرنے کے رجحان کو فروغ ملے گا۔ صحت عامہ کیلئے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے حماد اظہر نے کہا کہ درآمدی سگریٹس اور تمباکو کے متبادل (substitutes) اور الیکٹرانک سگریٹس پر ایف ای ڈی (FED) کی شرح میں اضافہ کیا جا رہا ہے، درآمدی سگریٹ، بیڑی، سگارز و چھوٹے سگارز اور تمباکو کی دیگر اشیاءپر عائد ایف ای ڈی (FED) کو عالمی ادارہ صحت کے معیارات کے مطابق 65 فیصد سے بڑھا کر 100 فیصد کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح تمباکو کے متبادل اور ای سگریٹس کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے۔ فلٹر راڈز (Filter Rods) پر عائد ایف ای ڈی (FED) کے حوالے سے وفاقی وزیر نے کہا کہ فلٹر راڈ سگریٹ کی تیاری میں ایک بنیادی چیز ہے۔ فلٹر راڈ پر ایف ای ڈی (FED) کی موجودہ شرح 0.75 روپے فی فلٹر ہے۔ تمباکو نوشی میں کمی اور ٹیکس management کی نگرانی اور اس کے اطلاق کو بڑھانے کیلئے یہ تجویز دی جا رہی ہے کہ موجودہ شرح کو بڑھا کر ایک روپے فی کلو گرام کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کیفین پر مشتمل مشروبات صحت کیلئے خطرہ ہیں، اس وجہ سے ان کے استعمال میں کمی لانے کیلئے درآمد اور مقامی فراہمی، دونوں جگہ ایف ای ڈی (FED) کو 13 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کی تجویز پیش کی جا رہی ہے۔ یہ قابل توجہ ہے کہ Aerrated drinks پر پہلے ہی 13 فیصد ایف ای ڈی (FED) نافذ ہے۔ حماد اظہر نے ڈبل کیبن پک اپ پر ایف ای ڈی کے نفاذ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مقامی اور درآمدی گاڑیوں اور ایس یو ویز (SUVs) پر ایف ای ڈی کو سٹرکچر (structure) پہلے سے ہی موجود ہے۔ ڈبل کیبن پک اپ جس کا تعین فی الوقت اشیاءکی نقل و حرکت کیلئے استعمال ہونے والی گاڑی کے طور پر کیا جاتا ہے جبکہ اس کا استعمال ملک کے خوشحال طبقے میں بطور STATUS SYMBOL جاتا ہے۔ اس کے استعمال کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے بھی یکساں قیمت والی دوسری گاڑیوں کے مطابق ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوٹاشیم کلوریٹ کے ریٹ میں اضافہ کیا جا رہا ہے، پوٹاشیم کلوریٹ کی درآمد اور مقامی فراہمی پر 17 فیصد سیلز ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جبکہ اس کے علاوہ 70 روپے فی کلوگرام بھی اضافی وصول کیا جاتا ہے۔ ماچس بنانے والوں کی صنعت کی سفارش پر یہ شرح 70 روپے فی کلوگرام سے بڑھا کر 80 روپے فی کلوگرام کیا جا رہا ہے۔ یہ شرح وزارت دفاعی پیداوار (منسٹری آف ڈیفنس پروڈکشن) کے زیر نگرانی اداروں کی جانب سے کی جانے والی درآمد اور ان کی فراہمی پر لاگو نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس نظام کو بہتر بنانے کیلئے درج ذیل اقدامات تجویز کئے جا رہے ہیں۔ گذشتہ دو سال سے ایف بی آر نے بڑے ریٹیلرز کیلئے کمپیوٹرائزڈ نظام متعارف کرایا ہے۔ ایسے ریٹیلرز کی تمام فروخت آن لائن نظام کے تحت ایف بی آر کے ساتھ منسلک ہے۔ موجودہ قانون میں ان افراد پر سیلز ٹیکس کی شرح 14 فیصد ہے جسے کورونا وباءکی وجہ سے 12 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے خام مال اشیاءکے غیر ضروری Wastage پر Limit کے تعین کے حوالے سے کہا کہ یہ دیکھا گیا ہے کہ بعض کاروبار خام مال میں سیکٹر کی اوسط Wastage سے زیادہ Wastage دکھا کر کم سیلز ٹیکس دیتے ہیں۔ اس امر کی حوصلہ شکنی کیلئے مختلف کاروباری Sectors کیلئے Wastage کی حدود مقرر کرنے کی تجویز ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ٹیکس بیس کے دائرہ کار میں پالیسی کے اقدامات کے ذریعے توسیع کیلئے شق 73 میں ترمیم کی گئی تاکہ یہ صرف مینوفیکچررز (manufacturers) کو پابند کر دے کہ وہ کسی بھی مالی سال میں غیر رجسٹرڈ شدہ فرد کو 100 ملین روپے تک کی اشیاءفراہم کر سکتے ہیں۔ اب یہ تجویز کیا جا رہا ہے کہ تمام رجسٹرڈ سپلائرز کو بھی درج بالا حد کا پابند کیا جائے تاکہ صرف مینوفیکچررز (manufacturers) ہی اس عمل میں اکیلے نظر نہ آئیں۔ واضح رہے کہ یہ شق صرف کاروبار کیلئے ہے اور عام صارفین اس شق سے متاثر نہیں ہوں گے۔ انہوں نے سیلز ٹیکس ایکٹ، 1990ءکے بارہویں شیڈول میں تبدیلی۔مینوفیکچررز (manufacturers) کے اخراج کے حوالے سے کہا کہ بارہواں شیڈول درآمد کے وقت 3 فیصد کے حساب سے Value added Tax وصول کرنے کی بنیاد فراہم کرتا ہے لیکن خام مال اور ثانوی اشیاءکی صورت میں Value added Tax صرف اس وقت دستیاب ہے جب کسٹم ڈیوٹی 16 فیصد سے کم ہے۔ اس شق نے مینوفیچکررز (manufacturers) کیلئے مشکلات پیدا کی ہیں۔ چنانچہ یہ تجویز دی جا رہی ہے کہ زبان کو سادہ بنایا جائے اور خام مال اور ثانوی اشیاءاگر اپنے کارخانے کیلئے استعمال ہوں تو ان پر ٹیکس نہ عائد کیا جائے۔سیمنٹ کا شعبہ ہماری معیشت کا نہایت اہم شعبہ ہے۔ وزیراعظم کے تعمیراتی پیکیج میں اس سیکٹر کی پیداوار میں اضافہ ایک اہم جزو ہے۔ پچھلے سال اس شعبے پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو 1.50 روپے فی کلو سے بڑھا کر 2 روپے فی کلو کیا گیا تھا۔ سیمنٹ کی پیداوار میں حالیہ کمی کے پیش نظر اس کو 2.00 روپے سے کم کرکے 1.75 روپے فی کلو کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005ءمیں چیزوں کی بحق سرکار ضبطگی کے حوالے سے کہا کہ چیزوں کو ضبط کرنے کے قانون کو وسعت دیتے ہوئے فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005ءمیں درج تمام چیزوں پر اس قانون کے لاگو کرنے کی تجویز ہے، میں سے FBR کو ٹیکس اکٹھا کرنے میں مدد ملے گی۔ ٹیکس افسران کے ٹیکس آرڈر کو تبدیل کرنے کے اختیارات میں تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انکم ٹیکس سیلز ٹیکس اور FED کے قوانین میں مساوات پید اکرنے کیلئے یہ تجویز ہے کہ اگر کسی ٹیکس گزار نے قانونی نقطے پر اپیل کی ہے تو وہ ایک درخواست کے ذریعے سے عدالتی فیصلے کا اطلاق آنے والے سالوں پر بھی کرا سکے گا۔ ADRC سے متعلقہ قوانین میں تبدیلی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ADRC کی کمیٹی میں ممبران کی تقرری میں مزید شفافیت اسے مزید جامع بنانے سے اور زیادہ اختیارات دینے اس کے فیصلوں کو قبولیت دینے ٹیکس کے سیکشن 47D اور FED کے سیکشن 38 میں ترامیم کی تجویز ہے۔ ٹیکس گزار کیلئے ضروری نہیں ہو گا کہ وہ اپیلز کے فورم سے اپنی اپیل واپس لے۔ چارٹر اکاﺅنٹنٹ، کاسٹ اکاﺅنٹنٹ یا وکیل جس کا ٹیکس کے شعبے میں 10 سال کا تجربہ ہو یا کوئی مشہور بزنس مین بھی ADRC کا رکن بن سکتا ہے۔ ADRC کی کمیٹی میں موجود کیس پر ٹیکس وصولی کے stay کی سہولت ہو۔ اگر ٹیکس گزار 60 دن کے اندر اپنی اپیل واپس لے لیتا ہے تو کمشنر پر کمیٹی کا فیصلہ قبول کرنا ضروری ہو گا۔ انہوں نے گوادر ٹیکس فری زون اور گوادر پورٹ کو ٹیکس سہولیات اور استثنیٰ کے 2019ءکے ٹیکس آرڈیننس کے قوانین کی فنانس بل 2020ءمیں شمولیت کے حوالے سے کہا کہ صدر پاکستان نے 6 اکتوبر 2019ءکو گوادر پورٹ اور گوادر فری زون سے متعلق ٹیکس قوانین کی منظوری دی تھی۔ ان تمام قوانین کو فنانس بل 2020ءمیں شامل کیا جا رہا ہے اور تمام قوانین کا جہاں جہاں اندراج ہوتا ہے وہ یکم جون 2020ءسے قابل عمل ہوں گے۔FED ایکٹ کے تحت نان ڈیوٹی پیڈ آئٹم کے قوانین کے دائرہ کار کو بڑھانے کے حوالے سے وفاقی وزیر نے کہا کہ بغیر FED کی ادائیگی کے بہت سی اشیاءکی تیاری اور فروخت کے مدنظر یہ تجویز ہے کہ سگریٹ اور مشروبات کے علاوہ وہ تمام اشیاءجن پر FED لاگو ہوتی ہے۔ اگر وہ بغیر ڈیوٹی کی ادائیگی کے پکڑی جاتی ہے تو ان پر تمام قوانین لاگو ہوں گے جس کیلئے FED کے قوانین 27 یا 26 میں ترمیم کی تجویز ہے۔ نویں شیڈول میں ترمیم۔موبائل فون پر سیلز ٹیکس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ موبائل فون پر سیلز ٹیکس ایکٹ 2014ءکے تحت نویں شیڈول کا سیلز ٹیکس ایکٹ میں شامل کیا گیا تھا۔ ECC اور کابینہ کی تجویز سے منظور ہونے والی موبائل فون پالیسی کے مطابق پاکستان میں بنائے جانے والے فونوں پر سیلز ٹیکس میں کمی کی گئی ہے۔ آڈٹ کے معاملات کو الیکٹرانک ذرائع سے سرانجام دینے کے تصور کے حوالے سے وفاقی وزیر نے کہا کہ آڈٹ کی سماعت کو وڈیو لنکس کے ذریعے سرانجام دینا ایک نئی اور وقت کی ضرورت ہے، خاص طور پر کورونا کے موجودہ حالات میں یہ نہایت اہمیت کا تصور ہے۔ قانون میں ترمیم کے ذریعے وڈیو لنک کے ذریعے آڈٹ کی گنجائش پیدا کی گئی ہے۔ مختلف اداروں کے ڈیٹا بیس تک بورڈ کو رسائی فراہم کرنے کیلئے نئی دفعات قانون میں شامل کی جا رہی ہیں جس متعلقہ ادارے معلومات کو آن لائن شیئر کر سکیں گے۔ کاروبار کرنے میں آسانی کی تجاویز کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اب میں انکم ٹیکس کے متعلقہ بجٹ تجاویز پیش کرتا ہوں۔ Withholding Tax Regime کی آسانی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ فی الوقت Withholding Tax Regime بہت طویل ہے جو نہ صرف withholding Tax کی نگرانی کو پیچیدہ بناتی ہے بلکہ ٹیکس گزاروں کی تعمیل (compliance) کی لاگت کو بھی بڑھاتی ہے۔ چنانچہ Withholding Tax Regime کو آسان بنانے کے لئے یہ تجویز کیا جاتا ہر اہے کہ 9 ود ہولڈنگ شقوں کو حذف کیا جائے اور اس میں شادی ہالوں اور تعلیمی اداروں میں ٹیکس گزار والدین کے بچوں کی فیس پر عائد ٹیکس کو ختم کیا جا رہا ہے۔ EPC کے تحت آف شور سپلائز کی ٹیکس ود ہولڈنگ میں کمی کی جا رہی ہے، on non-residents پر 30 فیصد کی موجودہ شرح بہت زیادہ ہے۔ لہذا بین الاقوامی معیار کے مطابق اسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اقدامات CPEC کے منصوبوں کی تعمیل میں مدد گار ثابت ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ درآمدات پر ٹیکس میں کمی کی جا رہی ہے، کمرشل امپورٹرز اور مینو فیکچرر کو یکساں مواقع فراہم کرنے کے لئے کیپیٹل گڈز کی امپورٹ میں ٹیکس کے بگاڑ سے بچنے کے لئے محصولات کے مزید وصولی اور چھوٹے اور درمیانے مینو فیکچرر کی سہولت کے لئے ایک بنیادی تبدیلی کی تجویز ہے۔ اس تجویز کے تحت درآمدات پر انکم ٹیکس کی شرح کو خام مال پر 5.5 سے کم کر کے 2 فیصد اور مشینری پر ٹیکس 5.5 سے کم کر کے 1 فیصد کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ اس شق سے منسلک ایگزیمپشن سرٹیفکیٹ کا نظام بھی ختم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کاروباری اخراجات کی نقد ادائیگیوں کی حد میں اضافہ کیا جا رہا ہے، کاروبار میں سہولت اور کاروبار کی لاگت میں کمی کرنے کے لئے سیکشن 21(1) کی موجودہ حد کو 10000 سے بڑھا کر 25000 کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح کاروبار میں ایک اکاﺅنٹ ہیڈ میں حد کو موجودہ پچاس ہزار سے بڑھا کر اڑھائی لاکھ کرنے کی تجویز ہے۔ اسی طرح کاروباری افراد کی سہولت کے لئے تنخواہوں اور اجرت دینے کے لئے نقد رقم کی حد کو 15 ہزار سے بڑھا کر 25 ہزار کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افراد اور AoP کو کرایہ کی آمدن سے اخراجات کی اجازت دینے کی تجویز ہے، تمام افراد اور AoPs کو یکساں مواقع دینے کے لئے اور پراپرٹی انکم میں تضادات کو دور کرنے کے لئے تمام افراد اور AoP کو پراپرٹی انکم میں اخراجات منہا کرنے کی اجازت دینے کی تجویز ہے۔ وفاقی وزیر نے بیرونی محصولات کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے کہا کہ بیرونی محصولات کی حوصلہ افزائی کے لئے یہ تجویز ہے کہ ایک سال میں بیرونی ترسیلات زر (Foriegn Remittances) کو بینک نکلوانے اور دوسرے بینک میں منتقل کرنے پر کسی قسم کا ٹیکس نہ لیا جائے۔ سمندر پار پاکاستانیز سیونگ بلز میں سرمایہ کاری کے فروغ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ سمندر پار پاکستانیز سیونگ بلز میں افراد کی جانب سے سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب SCRA کی طرز پر قرضے کا ایک Instrument جاری کیا جا رہا ہے۔ یہ تجویز دی جا رہی ہے کہ ایسے NRAR اکاﺅنٹس کو ٹیکس سے استثنیٰ فراہم کیا جائے۔ مرکزی انکم ٹیکس ریفنڈ کے حوالے سے وفاقی وزیر نے کہا کہ فی الوقت، انکم ٹیکس ریفنڈز متعلقہ فیلڈ فارمیشنز کے افسران کی جانب سے دستخط شدہ ریفنڈ واوچر کے ذریعے تصدیق، عمل درآمد اور جاری کیا جاتا ہے۔ یہ نظام فرسودہ ہے اور اس میں ہاتھ کے ذریعے کام کاج کی وجہ سے ٹیکس گزار اور ریفنڈ جاری کرنے والے افسر کے درمیان رابطے کے باعث غبن کا اندیشہ رہتا ہے۔ چانچہ شفافیت کو فروغ دینے اور ٹیکس ری فنڈ جاری رکنے کے طریقہ کار میں کارکردگی لانے کے لئے یہ تجویز کیا جا رہا ہے کہ ایک مرکزی انکم ٹیکس ریفنڈ شروع کیا جائے۔ حج آپریٹرز کے لئے استثنایات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حج گروپ آپریٹرز کے لئے انہیں غیر مقامی افراد کو ادائیگی کرتے وقت سیکشن 125 کے تحت ٹیکس کٹوتی سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ 200 سی سی تک گاڑیوں کے ایڈوانس ٹیکس سے خارج ہونے کی تشریح کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ معاشرے کے غریب طبقے کو ٹیکس کے اثر سے بچانے کے لئے ”موٹر وہیکلز“ کی تعریف میں ایک تشریح کی تجویز دی جا رہی ہے تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ سیکشن 231 بی اور 234 کے تحت آٹو رکشہ، موٹر سائیکل رکشہ اور 200 سی سی تک موٹرسائیکل پر ایڈوانس ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا۔ یہ تشریح معاشرے کے غریب افراد کو ریلیف فراہم کرنے کے مقصد سے کی جا رہی ہے۔ آکشن کے نتیجہ میں وصول کئے جانے والا ٹیکس اقساط میں وصول کیا جا سکتا ہے۔ فی الوقت سیکشن 236 اے کے تحت ایڈوانس ٹیکس جائیداد کی نیلامی کے وقت وصول کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی رقم اگر اقساط میں وصول کی جائے تو اس پر ٹیکس کی ادائیگی بھی قسطوں میں دینے کی سہولت دی جا رہی ہے۔ 153 کے تحت کٹوتی کے لئے اے او پیز (AoPs) یا انفرادی ود ہولڈنگ ایجنٹس (withholding agents) بنانے کے لئے آمدن کی حد میں اضافہ کے حوالے سے وفاقی وزیر نے کہا کہ فی الوقت ہر معینہ شخص پر اشیاءکی فروخت کے وقت ادائیگی، خدمات کی فراہمی یا پیش کرنے پر، یا معاہدے کی انجام دہی پر ود ہولڈنگ ٹیکس (Withholding tax) نافذ ہے۔ افراد اور شراکتی کاروبار کے ود ہولڈنگ ایجنٹ بننے کے لئے فروخت کی موجودہ حد کو 5 کروڑ سے بڑھا کر 10 کروڑ کیا جا رہا ہے۔ اس طرح سے چھوٹے اور درمیانی درجے کے کاروبار کو آسانی ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ کاروبار کرنے میں آسانی پیدا کرنے اور پبلک لمیٹڈ کمپنیز (public limited companies) کو سہولت فراہم کرنے کے لئے ان اداروں کو exemption کے سرٹیفکیٹس کے حصول کے لئے درخواست جمع کروانے کے 15 دن کے اندر اندر سہولت فراہم کی جائے۔ اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر سسٹم کے ذریعے خود کار طریقہ سے سرٹیفکیٹ کا اجراءکر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ٹیکس کے Disputes کو حل کرنے کا واضح نظام موجود نہیں جس کی وجہ سے سائلوں کے مقدمات سالوں تک چلتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں تجویز ہے کہ ٹیکس گزار کو معاہدے کے تحت ٹیکس ادا کر کے بے جا مقدمات سے نجات دلائی جائے جس کے لئے قوانین میں ترامیم کی جا رہی ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ تنازعات کے حل کے متبادل نظام کی مضبوطی اور مقدمے بازی کو کم کرنے کے لئے تجویز ہے کہ متاثرہ ٹیکس گزار کے لئے اس نظام کے فیصلوں کو لازمی طور پر ماننے کی پابندی نہ لگائی جائے۔ اس نظام کے تحت ہونے والے فیصلوں پر عمل صرف اس صورت میں لازمی ہو گا جب ایسا ٹیکس گزار اس فیصلے سے مطمئن ہو۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ود ہولڈنگ ٹیکس کی متعدد دفعات کے تحت استثنیٰ کے سرٹیفکیٹس کی فراہمی کے طریقہ کار کو شفاف بنانے کے لئے تجویز ہے کہ اس حوالے سے واضح طریقہ کار بنایا جائے۔ اس نظام میں متعدد امتیازی استثنیات (exemptions) کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ مزید برآں کاروبار میں آسانی پیدا کرنے کی غرض سے، باب XII کے تحت ایڈوانس ٹیکس کے طور پر وصول کئے گئے متعدد ود ہولڈنگ ٹیکسز کے حوالے سے استثنیٰ کے سرٹیفکیٹس کے حصول کی سہولت ایسے ٹیکس گزاروں کو بھی فراہم کرنے کی تجویزس ہے جو کہ مذکورہ ٹیکس سال کے لئے اپنے ذمہ ایڈوانس ٹیکس ادا کر چکے ہوں۔ تعلیمی اداروں کے حوالے سے وفاقی وزیر نے کہا کہ قانون پر عمل نہ کرنے کے رجحان کو حوصلہ شکنی کےھ لئے تجویز ہے کہ ایسے افراد جو ٹیکس گزاروں کی Active Taxpayer List میں موجود نہ ہوں، سکول کی دو لاکھ روپے سالانہ سے زائد فیس پر 100 فیصد سے زائد ٹیکس وصول کیا جائے۔ حماد اظہر نے REIT سکیموں کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے کہا کہ REIT سکیم کے تحت رہائشی عمارتوں کی ڈویلپمنٹ کی حوصلہ افزائی کے لئے غیر منقولہ جائیداد کی فروخت سے حاصل ہونے والے منافع کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے بشرطیکہ رہائشی عمارتوں کی ڈویلپمنٹ 30 جون 2020ءتک مکمل کر لی گئی۔ تجویز ہے کہ اس مدت کو 30 جون 2021ءتک بڑھا دیا جائے۔ Non-Resident کی Permanent Establishment پر ٹیکسیشن کے حوالے سے تجاویز کا ذکر کرتے ہوئے حماد اظہر نے کہا کہ خدمات کے حوالے سے Permanent Establishment پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے، خدمات پر 8فیصد ایڈوانس ٹیکس وصول کیا جاتا ہے تاہم کچھ مخصوص شعبوں میں کم منافع ہونے کے باعث 3 فیصد ٹیکس کا کاٹا جاتا ہے۔ تاہم non-residents کی Permanent Establishment کو یہ رعایت فراہم نہیں کی گئی ہے جو کہ غیر امتیازی سلوک ہے۔ اس لئے Permanent establishment کی non-resident مقیم ٹیکس گزاروں کے درمیان اس امتیاز کو ختم کرنے کے لئے تجویز ہے کہ ان خدمات پر ایڈوانس ٹیکس کی کٹوتی کی شرح کو PEs کے پر 3 فیصد کر دیا جائے۔ خصوصی معاشی زونز کے لئے رعایتوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خصوصی معاشی زونز میں کاروبار کے قیام اور وہاں سرمایہ کاری و مینو فیکچرنگ کی حوصلہ افزائی کے لئے تجویز ہے کہ خصوصی معاشی زونز کے ڈویلپرز کو جو رعایتیں اور سہولیات حاصل ہیں وہ معاون ڈویلپرز کو بھی فراہم کی جائیں۔ Toll Manufacturing کے لئے شرح میں کٹوتی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت ٹال (toll) مینو فیکچرنگ کیلئے ٹیکس کی شرح 8 فیصد ہے۔ تجویز ہے کہ اس شرح کو کمپنیوں کیلئے 4 فیصد اور دیگر کیلئے 4.5 فیصد کر دیا جائے۔ اس اقدام سے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ٹیکس کی موثر شرح نارمل ٹیکس ریٹ سے غیر موزوں طور پر زیادہ نہ ہو۔ Non-Resident کی Permanent Establishment پر دسویں شیڈول کے اطلاق کو بہتر بنانے اور قانون کوسادہ بنانے اور کاروبار میں آسانی پیداکرنے کیلئے یہ تجویز ہے کہ دسویں شیڈول کے تحت صرف Permanent Establishment پر کٹوتی کی اضافی شرح کا اطلاق کیا ائے تاکہ اگر رقومات اشیاءکی فروخت سے حاصل کی جا رہی ہیں اور ماضی میں اس بناءپر دسویں شیڈول کے تحت ان پر کٹوتی کا اطلاق نہ ہو اور ان رقومات کے وصول کنندہ کے طور پر Non-Resident ٹیکس گزاروں کو دگنے ٹیکس کی کٹوتی سے استثنیٰ دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس بیس میں وسعت اور قانون پر عملداری کو مضبوط بنانے کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں، ٹیکس بیس میں وسعت کی غرض سے تجویز ہے کہ بجلی کے اخراجات کو مخصوص شرائط کے تحت قابل قبول کاروباری کٹوتیوں میں شمار کیا جائے جس میں موجودہ استعمال کنندہ کے مکمل کوائف کا اندراج لازم کر دیا جائے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ٹیکس بیس میں وسعت اور کاروبار کو دستاویزی شکل میں لانے کی حوصلہ افزائی کیلئے تجویز ہے کہ ایسے کاروباری اخراجات جو کسی ایسے صنعتی ادارے کیلئے کئے گئے جا رہے ہوں جو کسی غیر رجسٹرڈ فرد کو سپلائی کرتے ہوں تو ان اخراجات کو 80 فیصد تک محدود کرنے کی اجازت ہے۔ معلومات کی رازداری کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ رجسٹریشن کی معلومات کی درستگی اور اس کے تحفظ کیلئے تجویز ہے کہ ایکٹوٹیکس پیئرلسٹ میں شامل ہونے کیلئے ٹیکس گزاروں کے پروفائل کو اپ ڈیٹ کرنے اور اس کی تصدیق کو لازمی قرار دیا جائے۔ اس ترمیم کی بدولت ٹیکس گزاروں سے درست ٹیکس وصول کرنے میں مدد ملے گی۔ مخصوص اداروں کے ڈیٹا بیس تک رسائی کے حوالے سے وفاقی وزیر نے کہا کہ تیسرے فریق پر مبنی ذرائع سے معلومات کے حصول اور Artificial Intelligentce اور تجزیئے کی بنیاد پر خود کار طریقے سے ٹیکس کم دینے والے لوگوں کو جانچنے کے نظام کی فعالی کیلئے تجویز ہے کہ مختلف اداروں سے خود کار اور مطالبے پر معلومات کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے تاکہ ٹیکس بیس میں وسعت کی کوششوں کو بہتر بنایا جا سکے۔ Automated Adjusted Assessment کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ایسے گوشواروں کو جمع کروانا جنہیں قانون کی رو سے assessment تصور کیا جاتا ہے، کے حوالے سے متعدد تکنیکی پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں۔ اس لئے یہ تجویز دی جا رہی ہے کہ ٹیکس گزاروں کی طرف سے جمع کروائے جانے والے گوشواروں کی ابتدائی پروسیسنگ کمپیوٹر کے ذریعے سے کی جائے تاکہ اگر گوشواوں میں حساب کتاب کی غلطی ، غلط claim، کوئی کٹوتیاں، ٹیکس کریڈٹ یا نقصانات جن کی آرڈیننس کے تحت اجازت نہیں ہے، موجود نہ ہوں تو انہیں دور کر لیا جائے۔ تجویز ہے کہ یہ پروسیسنگ خود کار نظام کے ذریعے سے کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس گزاروں کی حقیقی آمدن کے تعین کیلئے یہ تجویز ہے کہ پیداوار اور فروخت کا تعین Benchmarking Ratio اور محصولات کے اندازوں کی بنیاد پر کیا جائے۔ یہ Internal Best Practices کے مطابق ہے اس سے assessment پرواسسس ہو گا اور نظام میں مستعدی آئے گی۔ E-Audit کا ذکر کرتے ہوئے حماد اظہر نے کہا کہ آڈٹ کے پروسیس کو مزید موثر بنانے کیلئے یہ تجویز ہے کہ E-Audit Assessment متعاف کروایا جائے۔ مزید برآں آڈٹ ویڈیو لنک اور دیگر آن لائن سہولیات کے ذریعے بھی کیا جا سکے۔ معدنیات پر ایڈوانس ٹیکس کی وصولی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ودہولڈنگ کے دائرہ کار کو بڑھانے اور اس حوالے سے تمام افراد کے کاروباری لین دین پر نظر رکھنے کیلئے، تجویز ہے کہ دفعہ 236V کے تحت معدنیات پر ایڈوانس ٹیکس کی وصولی کو ایکٹوٹیکس پیئرلسٹ میں شامل افراد تک بڑھا دیا جائے۔ قانون میں تضادات کے خاتمے کیلئے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت ، بینک کے منافع جات کی فراہمی کے حوالے سے مختلف ریٹ موجود ہیں۔ تاہم بینکوں کے پاس مطلوبہ موجود نہیں ہے جس کے ذریعے سے حاصل کرنے والے افراد پر مختلف شرحوں سے ٹیکس عائد کر سکیں اس لئے منافع پر حاصل ہونے والی آمدنی سب کیلئے یکساں 15 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس نافذ کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیکشن 113 کے تحت افراد AOPs پر سیکشن 113 کے تحت لاگو ہے، لہٰذا Resident کمپنی کے علاوہ افراد اور AOPs Minumum Tax کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔ تجویز ہے کہ Non-Residents اور Residents پر ٹیکس کو یکساں کر کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کاروباری آمدن سے ٹرانسپورٹ گاڑیوں کی لاگت کو منطقی بنانے کے لئے بھی اقدامات کئے گئے ہیں، بہت سے کیسز میں مہنگی گاڑیوں کو لیز پر لیا جاتا ہے اور ٹیکس کی واجب ادائیگی کو کم کرنے کیلئے کٹوتی کے بھاری دعوے کئے جاتے ہیں۔ کاروبار کیلئے لی گئی گاڑیوں کی لاگت کی بالائی حد 2.5 ملین روپے موجود ہے مگر لیز پر یہ شرائط لاگو نہیں۔ تجویز ہے کہ اس معیار کو خرید کردہ اور لیز پر لی گئی گاڑیوں پر نظام کو یکساں کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بہترین عالمی طریقہ کو اپناتے ہوئے آدھے سال کے اصول کی بنیاد پر Depriciation کی مد میں کٹوتی کا اصول متعارف کرایا جا رہا ہے، سال کے اختتام پر اثاثوں کی خریداری اور پھر پورے سال کیلئے depriclation کی مد میں کٹوتی کی پریکٹس کی حوصلہ شکنی کیلئے تجویز ہے کہ Internal Best Practices کے مطابق آدھے سال کی بنیاد پر depriciation کی مد میں کٹوتی کا اصول متعارف کروایا جائے۔ Base Erosion کی بنیاد پر منافع کی تبدیلی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس رجحان کے خاتمے کیلئے، تجویز ہے کہ غیر ملکی شراکت داروں سے سود کی کٹوتی کو بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق محدود کیا جائے۔ FATF کے تقاضوں اور مخصوص اداروں کو دیئے جانے والے عطیات کیلئے استثنیٰ کا ذکر کرتے ہوئے حماد اظہر نے کہا کہ عطیات کی نگرانی اور منی لانڈرنگ سے بچنے کیلئے، تجویز ہے کہ دوسرے شیڈول کی شق 61 کے تحت مخصوص اداروں کو دیئے جانے والے عطیات کو مخصوص شرائط کے ساتھ استثنیٰ دیا جائے۔اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ NPO سٹیٹس کے تحت درکار دستاویزات کو مکمل کیا جائے، تجویز ہے کہ دوسرے شیڈول کی شق 66 کے تحت مخصوص اداروں کی آمدن کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے جس کیلئے دفعہ 100C کے تحت 100 فیصد ٹیکس کریڈٹ کی مطلوبہ شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے، اس کا اطلاق یکم جولائی 2021ءسے ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ تجویز ہے کہ غیر منافع بخش تنظیموں (NPO)، ٹرسٹس اور فلاحی اداروں کیلئے لازمی کر دیا جائے کہ وہ 100 فیصد ٹیکس کریڈٹ کے حصول کیلئے سابقہ ٹیکس سال کے دوارن حاصل ہونے والے رضا کارانہ چندوں اور عطیات کے گو شوارے جمع کروائیں۔ مزید برآں NPO کی تعریف میں ترمیم کرتے ہوئے اس میں صرف ایسی تنظیموں کو شامل رکھا جائے جو عوام الناس کے فائدے کیلئے کی جانے والی سرگرمیوں میں مشغول ہوں۔ وفاقی وزیر نے تکنیکی اور طریقہ کار کے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے مطالبات کی جزوی ادائیگی کو یقینی بنانے کے حوالے سے کہا کہ Assessment کے باوجود بھاری رقم ایک طویل عرصے تک قابل ادائیگی ہو تو تجویز ہے کہ پہلی ایپلٹ اتھارٹی کی طرف سے اپیل پر فیصلے کے بعد دوسری اپیل دائر کرنے کیلئے یہ شرط عائد کی جائے کہ ایسی اپیل دائر کرنے سے قبل کمشنر کی طرف سے روکے گئے ٹیکس کے 10 فیصد کے برابر ادائیگی کی جائے گی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ تجویز ہے کہ Wealth Statement کی نظرثانی کو کمشنر کی اجازت سے مشروط کردیا جائے، جیسا کہ آمدن کے گوشواروں کی صورت میں ہوتا ہے۔ IRIS کے ذریعے ایڈوانس ٹیکس کے خودکار حساب کتاب کیلئے یہ تجویز ہے کہ ٹیکس گزار کیلئے لازم قرار دیا جائے کہ ان سے وصول کئے گئے ٹیکس کے حوالے سے معلومات ایک تجویز کردہ فارمیٹ کی صورت میں فراہم کریں تاکہ سسٹم ان کی طرف سے ادا کردہ ٹیکس پر خودکار طور پر ٹیکس کریڈٹ فراہم کرسکے اور پہلے سے ادا کردہ ٹیکسز کے حوالے سے ایڈوانس ٹیکس کو کم کیا جاسکے۔ مزید برآں سسٹم کو اس قابل بنانے کیلئے کہ وہ خودکار طریقے سے قابل ادائیگی ایڈوانس ٹیکس کا حساب کتاب کرسکے۔ تجویز ہے کہ ایسے ٹیکس گزاروں کیلءے لازمی قرار دیا جائے کہ وہ IRIS کے ذریعے سہ ماہی کے منافع جات کی معلومات اس مہینے کی 5 تاریخ تک فراہم کریں گے جس میں کہ ایڈوانس ٹیکس ادا کیا جانا ہو۔ انہوں نے کہا کہ ودہولڈنگ ٹیکس جمع کرنے کی غرض سے کیپٹل گین اور ہولڈنگ عرصے کے ساتھ یکساں کرنے کیلئے یہ تجویز ہے کہ غیرمنقولہ جائیداد کی فروخت پر ودہولڈنگ کی مد پانچ سال سے کم کرکے چار سال کردیا جائے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ بین الاقوامی معاہدے کی وجہ سے یہ تجویز ہے کہ Non-Resident افراد پر رائلٹی کی ادائیگی تکنیکی خدمات کیلئے فیس، انشورنس پریمیم اور دیگر ادائیگیوں کی صورت میں ایکٹو ٹیکس پیئر لسٹ میں شامل نہ ہونے کی بنا لاگو ہونے والی 100 فیصد زیادہ شرح واپس لی جائے۔ شپنگ (Shipping) کے کاروبار سے منسلک افراد کیلئے ٹیکس کا نظام کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت شپنگ کے کاروبار سے وابستہ Residence Person فرض کردہ انک سیکشن 7-A کے تحت جون 2020ءتک لاگو ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ سیکشن کی فعالیت کو ٹیکس سال 2023 تک توسیع دی جائے۔ آمدنی ظاہر کرنے کیلئے آسانی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ قانون کے تحت ایک شخص جس کی آمدن پر فائنل ٹیکس لگتا ہے اسے آمدن کے گوشوارے دفعہ 114 کی بجائے 115(4) کے تحت جمع کرنا پڑتے ہیں۔ ٹیکس قوانین پر آسان عمل درآمد اور کاروبار میں آسانی کی خاطر یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ اس سٹیٹمنٹ کو دفعہ 114 کے تحت گوشوارے کا حصہ بنایا جائے۔ اپیل کرنے کیلئے ادا کی جانے والی فیس میں اضافہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2009ءسے اپیل فیس کا ڈھانچہ تبدیل نہیں ہوا۔ اسی لئے ، افراط زر کے پہلو کو مدنظر رمکھتے ہوئے یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ کمپنیوں کیلئے یہ لاگو شدہ فیص بڑھا کر 5,000/- روپیہ کی جائے اور باقی تمام کیسوں کیلئے اسے 2,500/- اور باقیوں کیلئے 1,000/- رکھی جائے۔ اپیلیٹ ٹربیونل میں اپیل کیلئے فیس میں اضافہ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ کمشنر (اپیل) کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی لاگو شدہ فیط 2,000/- روپیہ ہے۔2009 کے بعد فیس پر نظرثانی نہیں ہوئی ہے۔ افراط زر کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ کمپنیوں کیلئے یہ لاگو شدہ فیس2,000/- روپیہ سے بڑھا کر 5,000/- روپیہ کی جائے اور باقی تٰمام کیسوں کیلئے اسے 2,500/- روپیہ رکھا جائے۔ نیلامی کے ذریعے جائیداد کی فروخت کے سلسلے میں لائسنس کی تجدید اور ادائیگی بذریعہ اقساط کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوامی نیلامی یا بذریعہ ٹینڈر نیلامی میں پچھلی عوامی نیلامی یا بذریعہ ٹینڈر نیلامی کی لائسنس کی تجدید شامل ہے اور یہ کہ اقساط میں وصول کردہ ادائیگیوں پر ہر قسط پر ایڈوانس ٹیکس وصول کیا جائے جس کیلئے وضاحت شامل کرنے کی تجویز ہے۔ مشینری یا آلات کے استعمال پر Minimum Tax کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ سیکشن236Q یہ تقاضا کرتا ہے کہ مقررہ شخص سائنسی یا تجارتی آلات کے استعمال یا استعمال کے حق کے سلسلے میں کی جانے والی ادائیگیوں یا مشینری کے کرائے کے سلسلے میں ادائیگیوں پر ٹیکس کی کٹوتی کرے۔ اس سیکشن کے تحت عائد شدہ ایڈوانس ٹیکس، جوکہ حتمی ہوتا ہے، اصل آمدن اور عائد ٹیکس کو ظاہر نہیں کرتا، بلکہ اس کا اطلاق فرضی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس ٹیکس کے بارے میں تجویز کیا جاتا ہے کہ اسے Minimum Tax رکھا جائے اور درستگی کیلئے ترمیم کی جائے۔ سیکشن165 کے تحت سہ ماہی بنیادوں پر ودہولڈنگ ٹیکس کی سٹیٹمنٹ جمع کرانے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مانیٹرنگ کے عمل کے معیار میں بہتری لانے کیلئے یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ سٹیٹمنٹس کو سہ ماہی بنیاد پر جمع کیا جائے جوکہ اس وقت شش ماہی بنیاد پر جمع کرائی جارہی ہیں۔