اسلام آباد۔2اگست (اے پی پی):مقبوضہ فلسطینی علاقے کے لئے اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر او سی ایچ اے کے سربراہ آندریا ڈی ڈومینیکو نے کہا ہے کہ غزہ میں امداد کی ترسیل کو بڑھانا ایک چیلنج بنا ہوا ہے جہاں اسرائیلی جنگ کو تقریباً 10 ماہ ہونے والے ہیں۔ وہ مقبوضہ بیت المقدس سے نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں صحافیوں کو اپنی آخری بریفنگ میں بات کر رہے تھے کیونکہ اسرائیلی حکام نے ان کے ویزے کی تجدید نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے دیکھا ہے کہ گزشتہ 10 ماہ میں پوری آبادی شدید جسمانی اور ذہنی مسائل کا شکار ہیں۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے غزہ اور مغربی کنارے میں شہریوں کے منظم غیر انسانی سلوک دیکھا، انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ سکیورٹی کے نام پر انسانی تکالیف کو کس حد تک برداشت کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے اسرائیل کے خلاف بڑھتے ہوئے غصے، ان تاریک قوتوں کو بیدار کرنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا جو سام دشمنی کو ہوا دے سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ تمام رہنماؤں سے سام دشمنی، مسلم دشمنی اور نفرت انگیز تقاریر کے خلاف آواز اٹھانے کا مطالبہ کرتا ہے، جو صرف منفی عقائد ( stigma ) اور پسماندگی کو تقویت دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک قسم کا اتفاق ہے کہ ان کی آخری بریفنگ غزہ میں اسرائیلی جنگ کو 300 دن کے موقع پر ہو رہی ہے۔ڈی ڈومینیکو نے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں غزہ میں انخلاکے مزید اسرائیلی احکامات دیکھے گئے ہیں، جس سے زیادہ نقل مکانی شروع ہوئی اور یہ خاص طور پر تشویشناک ہے کہ انہوں نے ایسے علاقوں کو متاثر کیا جنہیں اسرائیل نے یکطرفہ طور پر محفوظ زون قرار دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم ان علاقوں میں فلسطینیوں کی امداد فراہم کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈیلیور کرنے کی ہماری صلاحیت کبھی بھی بڑے پیمانے پر نہیں بڑھی۔ دریں اثنا جنگ میں اموات کی تعداد اب بھی بڑھ رہی ہے،غزہ میں39 ہزار سے زیادہ افراد شہید،91 ہزار زخمی ہوئے ہیں جبکہ 90 فیصد آبادی یعنی 1.9 ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور 60 فیصد رہائشی عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق 49 ملین ٹن ملبہ پیدا ہوا ہے۔ مزید برآں، غذائی عدم تحفظ اپنی بلند ترین سطح پر ہے اور حال ہی میں سیوریج کے نمونوں میں پولیو پایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان حالات میں ہم م لوگوں کو پانی، خوراک، خیمے، کپڑے، حفظان صحت کی اشیا، غذائی سپلیمنٹس اور نقد رقم فراہم کرتے ہیں۔ ہم ہسپتالوں کو بیڈ سٹریچرز، ادویات، کھانے اور طبی انخلا کی سہولیات سے آراستہ کرتے ہیں،تاہم، انہوں نے اس سلسلے میں امددای سرگرمیوں کو بڑھانے کی ضرورت کو اجاگر کیا۔
ڈی ڈومینیکو نے مغربی کنارے کی صورتحال پر بھی توجہ دی، جہاں اقوام متحدہ نے 7 اکتوبر سے اب تک 141 بچوں سمیت 572 فلسطینیوں کے قتل کی تصدیق کی ہے جن میں زیادہ تر کو اسرائیلی فوج اور آباد کاروں نے فائرنگ کا نشانہ بنایا۔ مسماری کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اب لگتا ہے کہ وہ ہر طرف پھیل رہے ہیں اور ان گھروں کو بھی متاثر کر رہے ہیں جو ان علاقوں میں ہیں جو کئی سال سے بند ہیں۔ مجموعی طور پر، 1,300 سے زیادہ ڈھانچوں کو منہدم کیا گیا، جن میں سے تقریباً 40 فیصد آباد تھے، جس سے تقریباً3 ہزار افراد بے گھر ہوئے۔ انہوں نےکہا کہ گلیوں کو مکمل طور پر مسمار اور سیوریج نیٹ ورک کو منہدم کر دیا گیا ہے اور اس نے صحت عامہ کو انتہائی متاثر کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ انسانی ہمدردی کے کارکنوں کے لیے اسرائیلی فوج کا رویہ بھی زیادہ جارحانہ ہوتا جا رہا ہے۔
ہمیں منظم طریقے سے چوکیوں پر روکا گیا اور شناخت کی گئی۔ وہ عملے سے گاڑی سے باہر نکلنے، چابیاں دینے کا کہتے ہیں ۔ وہ ہر ایک عملے کی شناخت کرنا چاہتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ بدقسمتی سے بڑھتا ہوا رجحان ہے۔امدادی عملے کے لیے پرمٹ اور ویزوں کی کمی بھی مغربی کنارے میں بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے لیے ایک مسئلہ بن رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ویزے ایک سال کے لیے دیئے جاتے تھے اور جنگ شروع ہونے کے بعد انہیں تین سے چھ ماہ تک مختصر کر دیا گیا ہے۔انہیں حال ہی میں ایک ماہ کی توسیع دی گئی اور متنبہ کیا گیا کہ ویزے کی تجدید نہیں کی جائے گی۔