اسلام آباد۔22فروری (اے پی پی):سابق سیکرٹری خارجہ اور انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل سہیل محمود نے کہا ہے کہ ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے ایک جامع اور ٹارگٹڈ نقطہ نظر ناگزیر ہے جس میں اقتصادی فریم ورک کے اندر ڈھانچہ جاتی ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے طویل مدتی ترقی کو مد نظر رکھنا ہوگا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے یہاں انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں ”پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے“کے موضوع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب میں سابق سیکرٹری وزارت خزانہ اور اقتصادی امور معین افضل نے خصوصی شرکت کی۔ سہیل محمود نے اپنے خطاب میں ان اہم اقتصادی چیلنجوں پر روشنی ڈالی جن کا پاکستان اس وقت سامنا کررہا ہے، جو اندرونی اور بیرونی دونوں عوامل سے فروغ پا رہے ہیں۔ انہوں نے روس یوکرین تنازعہ اور مشرق وسطی کی صورتحال کے تناظر میں عالمی اقتصادی سست روی، کووڈ-19 کی وباء سمیت خوراک اور ایندھن کے بحران کے اثرات بھی ذکر کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان دوہرے خسارے کے چیلنج سے نمٹ رہا ہے جس میں مالیاتی اور کرنٹ اکائونٹس شامل ہیں جو بالآخر قرضوں کے جال کی طرف جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کو بڑھتی ہوئی مہنگائی، غذائی عدم تحفظ، توانائی کے بحران اور بے روزگاری کا سامنا ہے جس نے پہلے سے موجود چیلنجوں میں اضافہ کیا ہے، ان رکاوٹوں نے پائیدار ترقی کے حصول کے لیے قوم کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ سہیل محمود نے کہا کہ ضروری اصلاحی اقدامات پر عمل درآمد بشمول سماجی شعبوں کی جانب وسائل کی ری ڈائریکشن، مالیاتی رکاوٹوں کی وجہ سے رکاوٹ ہے جس کے نتیجے میں جی ڈی پی کی شرح نمو میں بھی کمی ہوئی ہے۔
قبل ازیں اپنے تعارفی کلمات میں ڈائریکٹر سینٹر فار سٹریٹجک پرسپیکٹیو ڈاکٹر نیلم نگار نے کہا کہ معیشت کو شدید معاشی عدم توازن کا سامنا ہے، ادائیگیوں کے توازن کے بحران، زرمبادلہ کی کمی اور سب سے بڑھ کر مالیاتی بے ضابطگی، بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی طرف سے فراہم کردہ مالیاتی محرکات کے سلسلے کے باوجود بھی معیشت تیزی سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ انہوں نے کہا کہ یہ معیشت کے بنیادی پہلوئوں کو سمجھنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ سابق سیکرٹری وزارت خزانہ اور اقتصادی امور معین افضل نے اپنے خطاب میں پاکستانی معیشت کو درپیش حالیہ چیلنجز پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے ملک کی معاشی پریشانیوں کی وجہ انسانی وسائل کی غلط تقسیم کو قرار دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اقتصادی بحرانوں پر قابو پانے کے لیے سخت اصلاحاتی عمل کی ضرورت ہے۔ انہوں نے سی پیک جیسی سرمایہ کاری کے ممکنہ فوائد کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں احتیاط سے استعمال کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کا استحکام پائیدار ترقی کے حصول پر منحصر ہے جس کے لیے کم از کم جی ڈی پی کی شرح نمو 5 فیصد کے قریب ہونا ضروری ہے۔
انہوں نے غربت اور عدم مساوات کا مقابلہ کرنے پر زور دیا اور کہا کہ مالیاتی نظم و ضبط، بچت اور آمدنی میں اضافہ، قرض کا ذمہ دار انتظام، تجارتی تنوع، ایف ڈی آئی کے لیے سازگار ماحول، ساختی اصلاحات اور سب سے بڑھ کر دانشورانہ فیصلے ضروری ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس وقت سب سے اہم تشویش بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے جو شرح مبادلہ اور شرح سود دونوں کو متاثر کرتی ہے۔
معین افضل نے ادائیگیوں کے توازن کے آنے والے چیلنجز سے نمٹنے، تجارتی پالیسیوں پر سٹریٹجک توجہ دینے اور ضروری حل کے طور پر برآمدات میں تنوع اور ایک قابل انتظام کرنٹ اکائونٹ بیلنس کا خاص طور پر ذکر کیا جو پائیدار ترقی کے لیے ضروری ہے۔ تقریب کے اختتام پر آئی ایس ایس آئی کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین سفیر خالد محمود کا تقر یب کے شرکاء سے اظہار تشکرکیا۔