اسلام آباد۔11نومبر (اے پی پی):نظریہ پاکستان کونسل کے زیر اہتمام ایوان قائد میں یوم اقبالؒ کے حوالے سے "اقبال کا نوجوان” کے عنوان سے منعقدہ سیمینار منعقد کیا گیا۔ممتاز نقاد و دانشور پروفیسر فتح محمد ملک نے سیمینار کی صدارت کی جبکہ مہمان خصوصی رحمت اللعالمین و خاتم النبیین ﷺ اتھارٹی کےچیئرمین خورشید ندیم تھے ۔پروفیسر فتح محمد ملک نے سیمینار نے اپنے خطاب میں کہا کہ اقبال نہ صرف ملت اسلامیہ بلکہ ملت انسانیہ کی خاطر مضطرب و بے چین رہے جس کا اظہار وہ اپنی نظم و نثر میں کرتے رہے ، اقبال اس سرزمین کے مستقبل کے بارے میں بھی پریشان تھے ، اسی صورتحال میں اقبال نے تصور پاکستان پیش کیا اور تحریک پاکستان کے ابتدائی دور میں بانیان کے ساتھ شریک رہے اور اسکی قیادت بھی کی۔ جب پاکستان معرض وجود میں آگیا تو قائد اعظم نے اپنی پہلی تقریر میں کہا کہ اب مسلم لیگ کے منشور پر عمل کرنے کا وقت آگیا ہے۔
سیمینار کے مہمان خصوصی معروف اقبال شناس و دانشور، چیئرمین رحمت اللعالمین و خاتم النبیینﷺ اتھارٹی خورشید ندیم نے اپنے خطاب میں کہا کہ حضرت علامہ محمد اقبال رح کے حوالے سے سیمینار کا عنوان "اقبال کا نوجوان” ہے لیکن مجھے افسوس ہے کہ تقریب میں نوجوانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ چیئرمین رحمت اللعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی خورشید ندیم نے اپنے خطاب میں کہا کہ اقبال کے نزدیک نوجوانوں کی بہت اہمیت رہی ہے اسی لیے انہوں نے بار بار نوجوانوں کو مخاطب کیا۔ میری پسندیدہ کتاب "جاوید نامہ”ہے۔ دراصل انہوں نے اس میں اپنی قوم کے نوجوانوں کو مخاطب کیا ہے اور انہیں اپنے حال اور مستقبل کے حوالے سے غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اقبال نے نوجوانوں کو امیری کی بجائے غریبی میں نام پیدا کرنے کی دعوت دی۔ آج بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اقبال کی شاعری میں پوشیدہ اسرار و رموز سے روشناس کریں۔ نظریہ پاکستان کونسل کے چیئرمین میاں محمد جاوید نے کہا کہ اقبال ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور انکی تعلیمات کے پاکستانی معاشرے پر اثرات بہت گہرے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اقبال کے سدا بہار پیغام یا شاعری کو آسان اسلوب میں منتقل کرکے نوجوانوں تک پہنچائیں تاکہ نئی نسل اور ملت اسلامیہ اس پیغام سے فائدہ اٹھا سکے۔ اس موقع پر سینیٹر رزینہ عالم خان کا کہنا تھا کہ اقبال ہر دور اور ہر نسل کے شاعر ہیں اور انکی آواز یکساں طور پر ہر ایک تک پہنچانے کیلئے ضروری ہے کہ اقبال کی نظموں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی کتابیں سکول کے طلبہ کو آسان زبان میں مہیا کی جائیں تاکہ اقبال کا پیغام ان تک پہنچ سکے۔
پروفیسر ڈاکٹر عارف خان نے کہا کہ اقبال آج بھی زندہ ہیں اور انکی فکر کی تفہیم ابھی باقی ہے۔ کلام سے زیادہ پیغام قیمتی اور ضروری ہوتا ہے۔ اقبال کی کتب ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے طلبہ تک پہنچائی جانی چاہئیں۔ ڈاکٹر ساجد خاکوانی نے کہا کہ اقبال نے اپنے نوجوانوں کیلئے شاہین جیسے درویش مگر بلند پرواز پرندے کو آئیڈیل قرار دیا اور اپنے کلام کے ذریعے شاہین کی خصوصیات کو اپنے نوجوانوں میں پیدا ہونے کی خواہش کا جگہ جگہ اظہار کیا ہے کہ شاہین اپنا نشیمن نہیں بناتا اور اپنا شکار بھی خود کرتا ہے۔
خضر سلیم نے کہا کہ اقبال کی شاعری میں گہری معنویت ہے۔ زبان کوئی بھی ہو پیغام میں نوجوانوں کیلئے پوشیدہ معنویت کی تفہیم ضروری ہے۔ عبداللہ یوسف نے کہا کہ اقبال بڑے شاعر تھے اور انہوں نے قوم کی بقاء کیلئے بڑا تصور، تصور پاکستان دیا۔ آج بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اقبال کے فلسفہ خودی سے آگاہ کریں۔ صلاح الدین چوہدری کا کہنا تھا کہ اقبال عالمی شہرت کے حامل بڑے مفکر اور شاعر تھے، اسی لیے انہیں سر کا خطاب ملا۔ انکا شمار بانیان تحریک پاکستان میں ہوتا ہے۔
انہیں سال میں ایک دن نہیں بلکہ بار بار یاد کیا جانا چاہئیے۔ امتیاز قریشی نے اقبال کا حجاز مقدس کے حوالے سے یادگار واقعہ اور انکی نظم شفاخانہ حجاز سنائی۔حمید قیصر نے کہا کہ اقبال مفکر، فلسفی اور صوفی شاعر تو تھے ہی بلکہ وہ ایک مسلمان قوم کے نجات دہندہ تھے اور محسن تھے۔ قبل ازیں جن معروف شعراء نے اقبال کو منظوم خراج پیش کیا ان میں محمد گل نازک، خضر سلیم، محمد عرفان خان اور فرخندہ شمیم شامل تھے جنہوں نے اپنی نظم "اقبال نے کہا تھا” پیش کی۔