اسلام آباد ۔ 27 جولائی (اے پی پی)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان چند ملکوں میں شامل ہے جہاں وباءپر قابو پا لیا گیا ہے لیکن ہمیں عیدالاضحی اور محرم کے دوران احتیاط برتنے کی ضرورت ہے تاکہ صورتحال بہتر ہونے پر تعمیرات کے شعبہ کی طرح دیگر شعبے بھی ایس او پیز کے ساتھ کھولے جا سکیں، ہم نے کورونا کے ساتھ اپنے لوگوں کو بھوک سے مرنے سے بھی بچانا تھا اس لئے خطرہ مول لے کر سمارٹ لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا جو اﷲ کے فضل و کرم سے بہتر ثابت ہوا، عیدالاضحیٰ اور محرم پر احتیاط نہ کی تو کیسز کی تعداد میں پھر اضافہ ہو سکتا ہے۔ وہ پیر کو وزیراعظم ہاﺅس میں کورونا کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے منعقدہ اجلاس کے بعد خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز، وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات اسد عمر، وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا، وزیراعظم کے فوکل پرسن برائے کوویڈ 19 ڈاکٹر فیصل سلطان اور وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی بہبود و تخفیف غربت ڈاکٹر ثانیہ نشتر بھی موجود تھیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اﷲ کے فضل و کرم سے پاکستان میں کورونا کے کیسز اور اموات کی شرح میں کمی آ گئی ہے اور کل تین ماہ کے دوران سب سے کم شرح ریکارڈ کی گئی ہے، ہسپتالوں پر مریضوں کا جو دباﺅ تھا اس میں بھی کمی آئی ہے، انتہائی نگہداشت اور آکسیجن بیڈز پر دباﺅ بھی کم ہو گیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ اﷲ تعالیٰ کا ہم پر خاص کرم ہے کہ پاکستان ان چند ملکوں میں ہے جس نے کورونا کی وباءپر قابو پا لیا ہے لیکن ابھی چیلنجز ختم نہیں ہوئے۔ ہمیں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔ انہوں نے کہا کہ 13 مارچ کو جب لاک ڈاﺅن کیا تو بڑے چیلنجز کا سامنا تھا، آج ہم مشکل وقت سے نکل آئے ہیں اور کورونا کیسز کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم پر دباﺅ تھا کہ ہم یورپ جیسے اقدامات کریں۔ ہم نے بھی لاک ڈاﺅن کیا۔ ہماری پہلی حکومت تھی جس نے اس بات کو سمجھا کہ یورپ اور چین کے مقابلے میں ہمارے ملک کے حالات مختلف ہیں۔ پاکستان کی حکومت وہ پہلی حکومت تھی جس کو یہ بات سمجھ آ گئی کہ جب ملک میں غربت اور انفارمل لیبر ہو، کچی آبادیوں میں لوگ رہتے ہوں، 70 سے 80 فیصد لیبر رجسٹر نہ ہو، وہاں کورونا سے نمٹنے کے لئے مختلف حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔ ہم نے مشاورت سے وہ فیصلے کئے جو دنیا کو بعد میں سمجھ آئے۔ پاکستان نے سمارٹ لاک ڈاﺅن کی حکمت عملی اختیار کی۔ دنیا کو اس کی سمجھ بعد میں آئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں سات آٹھ لوگ ایک کمرے میں رہتے ہوں وہاں کرفیو اور لاک ڈاﺅن نہیں ہو سکتا۔ ہماری عوام کی اکثریت دیہاڑی دار، چھابڑی فروش، رکشہ ڈرائیور اور محنت کش طبقے پر مشتمل ہے، اگر انہیں گھروں میں بند کر دیتے تو بھوک سے مرتے اور باہر نکل آتے جیسا کہ کئی ملکوں میں ہوا۔ بھارت میں چار گھنٹے کے نوٹس پر کرفیو لگا دیا گیا جس سے وہاں بھوک اور غربت بڑھ گئی اور شہری پھنس کر رہ گئے۔ سو سو میل پیدل چل کر اپنے گھروں کو جانا پڑا۔ ایسا لاک ڈاﺅن نافذ کرنا مشکل ہوتا ہے، یہ عملی طور پر ممکن نہیں ہوتا۔ امیر طبقات کو گھروں میں بند ہو کر رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن غریب طبقے کے لئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ گھروں میں بند ہو کر بیٹھ جائیں۔ آج دنیا تسلیم کر رہی ہے کہ مکمل لاک ڈاﺅن نا ممکن ہے۔ ہم نے سمارٹ لاک ڈاﺅن اور زرعی شعبے کو بند نہ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ خوراک کی فراہمی میں تعطل نہ آئے۔ مشکل وقت میں ہم نے اہم فیصلے کئے۔ تعمیرات کا شعبہ کھولنے کا فیصلہ کیا تاکہ مزدوروں کو روزگار میسر آئے۔ ہم پر تنقید کی گئی اور یہ تنقید دولت اور وسائل سے مالا مال طبقے نے کی۔ کہا گیا کہ اس پالیسی سے اموات میں اضافہ ہوگا۔ ہمیں یورپ کی مثالیں دی گئیں لیکن ہم نے لوگوں کو کورونا کے ساتھ بھوک سے مرنے سے بھی بچانا تھا اس لئے ہم نے خطرہ مول لے کر سمارٹ لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا جو کہ اﷲ کے فضل و کرم سے درست ثابت ہوا۔ اس دوران حکومت نے غریب طبقے کو بچانے کے لئے احساس پروگرام کے تحت امداد کی فراہمی کا سلسلہ شروع کیا۔ بھارت میں نچلا طبقہ لاک ڈاﺅن کے باعث پس کر رہ گیا۔ پاکستان میں احساس پروگرام کی کامیابی کی دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی کہ اتنے کم وقت میں اتنے زیادہ لوگوں کو شفاف پروگرام کے ذریعے اتنا پیسہ پہنچایا گیا ہو۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس پروگرام کے تحت لوگوں کی رجسٹریشن اور جانچ پڑتال کے بعد کم ترین وقت میں انہیں نقد رقم فراہم کی گئی۔ اس سے کمزور طبقہ ان مشکل حالات سے بچ گیا جن کا شکار بھارت کا کمزور طبقہ ہوا۔ مختلف مقامات جہاں وباءزیادہ پھیل رہی تھی کو منتخب کر کے وہاں سمارٹ لاک ڈاﺅن کیا گیا اور اس علاقے کے لوگوں کی مدد بھی کی گئی جس پر میں اپنی پوری ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ بھارت میں سخت لاک ڈاﺅن کے باوجود کورونا کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے اور وباءپھیل رہی ہے۔ ہسپتالوں میں اموات اور کیسز کی تعداد پاکستان کی نسبت زیادہ ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ دنیا کورونا وائرس کو ابھی تک پوری طرح سمجھ نہیں سکی۔ ابھی اس حوالے سے دنیا سیکھنے کے مرحلے میں ہے۔ مختلف ملکوں سے مختلف طرح کا ڈیٹا آ رہا ہے لیکن دنیا نے ایک بات جان لی ہے کہ اگر کیسز کی تعداد کم ہو رہی ہو اور احتیاط چھوڑ دی جائے تو کیسز کی تعداد دوبارہ بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں میلبورن، سپین اور ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایران میں ایک دن میں دو دو سو لوگ اس وباءکے باعث ہلاک ہو رہے تھے۔ جب یہ تعداد کم ہونا شروع ہوئی تو لاک ڈاﺅن میں نرمی شروع کر دی گئی لیکن احتیاط نہ کرنے کے باعث کیسز کی تعداد پھر بڑھنا شروع ہو گئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ محرم اور عید الاضحی کے ایام میں ہم نے دوسرے ملکوں کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے مزید احتیاط کرنی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ پاکستان میں کورونا کے کیسز میں کمی آئی ہے لیکن اگر محرم الحرام اور عیدالاضحیٰ پر احتیاط نہ کی تو کورونا کیسز کی تعداد پھر بڑھ سکتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ لاک ڈاﺅن سے ساری دنیا کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔ ہمارے معاشی حالات پہلے ہی بہتر نہیں تھے، اب اﷲ تعالیٰ نے ہم پر مہربانی کی ہے تو ہم نے اگر نہ شکری کی اور احتیاط نہ کی تو جس طرح عیدالفطر کے بعد کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا جس سے ہسپتالوں میں بھی رش بڑھ گیا تھا اور ڈاکٹرز اور میڈیکل اسٹاف بھی متاثر ہونا شروع ہو گئے۔ اس طرح کی صورتحال پھر پیدا ہو سکتی ہے جس کے باعث ہمیں اگر پھر لاک ڈاﺅن کرنا پڑا تو معاشی صورتحال بھی مزید متاثر ہوگی اور ہم اپنے بزرگوں اور بچوں کی جانوں کو بھی خطرے میں ڈالیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت تعمیرات کے شعبے کے لئے بہت بڑا پروگرام لے کر آ رہی ہے۔ پلاٹس کی قیمتیں اوپر جا رہی ہیں۔ سیمنٹ اور سریئے کی کھپت بڑھ رہی ہے۔ اس لئے ہمیں اپنی بہتر ہوتی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لئے عیدالاضحیٰ اور محرم الحرام پر مزید احتیاط کرنا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم چیز فیس ماسک کا استعمال ہے، یہ کورونا وائرس سے بچنے کا سب سے اہم طریقہ ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اعداد و شمار کے مطابق آن لائن قربانی بک کرانے میں اضافہ ہوا ہے۔ عوام اس سے استفادہ کر سکتے ہیں لیکن اگر مویشی منڈی جانا ہی ہے تو ایس او پیز پر عمل درآمد کریں۔ اگر آنے والے دنوں میں ہم نے احتیاط کی تو ریستوران، سروس سیکٹر، شادی ہالوں اور سیاحت سمیت مزید شعبوں کو بھی کھولا جائے گا کیونکہ ان شعبوں سے وابستہ افراد بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ علماءکرام سے بھی اپیل کریں گے کہ عیدالاضحیٰ اور محرم الحرام پر احتیاطی تدابیر کا خیال رکھیں تاکہ ہم زندگی کے باقی شعبے بھی کھول سکیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ عیدالاضحیٰ اور محرم الحرام کے بعد صورتحال اگر کنٹرول میں رہی تو ایس او پیز کے ساتھ تعلیمی ادارے کھولنے کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ عوام احتیاطی تدابیر اختیار کریں گے۔