وزیر اعظم کی طرف سے ہندوستان کو کشمیر سمیت تمام مسائل پر مذاکرات کی دعوت پاکستان کے دو ٹوک مؤقف کی ترجمانی ہے، حافظ طاہر محمود اشرفی

Hafiz Tahir Mahmood Ashrafi
Hafiz Tahir Mahmood Ashrafi

اسلام آباد۔17جنوری (اے پی پی):وزیراعظم کے مشیر برائے بین المذاہب ہم آہنگی و مشرق وسطی امور حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے ہندوستان کو کشمیر سمیت تمام مسائل پر مذاکرات کی دعوت پاکستان کے واضح اور دو ٹوک مؤقف کی ترجمانی ہے، ہندوستانی حکومت کو اقلیتوں اور کشمیریوں پر مظالم بند کر کے تمام مسائل کے حل کیلئے مذاکرات کی طرف بڑھنا چاہیے۔ یہ بات چیئرمین پاکستان علماء کونسل حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے عرب و پاکستانی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

حافظ محمود اشرفی نے کہا کہ ہندوستان اگر مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو اسے کشمیر کے مسئلے کو 2019 ء کی سطح پر لانا ہو گا، اگست2019ء میں ہندوستان کی طرف سے کے جانے والے اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی برادری کے مؤقف کے خلاف ہیں۔ پاکستان نے کبھی بھی مذاکرات سے راہ فرار اختیار نہیں کیا، کشمیر کے مسئلہ پر سعودی عرب اور اسلامی تعاون تنظیم کا مؤقف پاکستان کے مؤقف کے مطابق ہے، کشمیر کے مسئلہ کو نظر انداز کر کے ہندوستان سے مذاکراتی عمل ممکن نہیں ہو سکتا۔ ہندوستان پاکستان مذاکرات اور کشمیر کے مسئلہ کا حل خطہ میں خوشحالی لا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام جبری مذہب کی تبدیلی یا جبری شادی کی اجازت نہیں دیتا، پاکستان کے علماء اس پر فتوے دے چکے ہیں، جبری شادیوں اور مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کی رپورٹ حقائق کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے ایک عرب ٹی وی کو دئیے گئے انٹرویو میں ہندوستان کو مسئلہ کشمیر سمیت تمام امور پر مذاکرات کی دعوت دے کر پاکستان کے واضح اور دو ٹوک مؤقف کی ترجمانی کی ہے، وزیر اعظم شہبازشریف نے جس مؤقف کو بیان کیا ہے وہ پوری قوم کا مؤقف ہے ۔ انہون نے کہا کہ پاکستان خطہ میں امن کیلئے مذاکرات چاہتا ہے لیکن اس کا راستہ مسئلہ کشمیر پر مذاکرات سے ہی نکلے گا،جنگوں سے مسائل حل نہیں ہوتے ، مذاکرات سے ہی حل ہوتے ہیں، لیکن پاکستان ہر قسم کی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ اسلام میں جبری مذہب کی تبدیلی یا شادی کا تصور ہی نہیں ہے اور پاکستان میں اس حوالہ سے شکایات میں بہت حد تک کمی ہوئی ہے ۔ بعض واقعات میں اسلام کا نام استعمال کیاگیا ہے حالانکہ اسلام شادی اور مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے کسی قسم کے جبر کی اجازت نہیں دیتاہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے مسلم علماء نے دیگر مذاہب کے قائدین کے ساتھ مل کر ان مسائل کو حل کیا ہے اور دارالافتاء پاکستان اور پاکستان کے تمام مسلم مکاتب فکر کے علماء و مشائخ کا متفقہ فتویٰ ہے کہ اسلامی تعلیمات کسی بھی شخص کو جبراً مذہب اسلام میں داخل کرنے اور کسی بھی عورت یا مرد کی جبراًشادی کی اجازت نہیں دیتیں۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کے آفس کو اس سلسلہ میں مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرنی چاہئیں ، بعض ادارے اور این جی اوز صرف اپنے مفادات کیلئے اس قسم کا بے بنیاد پراپیگنڈہ کرتی ہیں۔