پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہے، اس کی کسی کمیٹی میں کسی ادارے کے سربراہ کو طلب کیا جائے تو اسے پیش ہونا چاہیے، وزیر دفاع خواجہ آصف

اسلام آباد۔3اگست (اے پی پی):وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہے، اس کی کسی کمیٹی میں کسی ادارے کے سربراہ کو طلب کیا جائے تو اسے پیش ہونا چاہیے، اس ادارے کو مضبوط بنانا حکومت، اپوزیشن سمیت سب کی ذمہ داری ہے، خیبرپختونخوا میں احتساب کا ادارہ بند کردیا گیا، باقی تینوں صوبوں اور وفاق میں احتساب ہوتا رہا، گزشتہ روز اپنے آپ کو آئین اور قانون کے تحت ملک چلانے کے دعویدار کو جھوٹے بیان حلفی جمع کرانے پر آئینی ادارے نے بے نقاب کردیا، دیگر اداروں کے عہدیدار پبلک اکائونٹس کمیٹی میں پیش ہو سکتے ہیں تو نیب کے ادارے کا احتساب کیوں نہیں ہو سکتا،یہ سلسلہ ملک کے وجود کے لئے تشویشناک ہے۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان کی جانب سے اٹھائے گئے نکات کی تائید کرتے ہوئے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے کہا کہ اداروں کو احتساب سے استثنا پارلیمان کی بالادستی کی نفی ہے۔ یہ بالادستی آئین کے تحت پارلیمان کو حاصل ہے۔ نور عالم نے اہم نکتہ اٹھایا ہے، آئین کے مطابق جب ہمارا ادارہ پارلیمان کے سپریم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس ادارے کو پی اے سی کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے۔ پی اے سی اس ہائوس کی سب سے بااثر کمیٹی ہے۔ اپنے کام، حدود کے اعتبار سے اس کو کوئی چیلنج کرے تو ہمیں اس کو ہائوس میں لانا چاہیے۔

ساری دنیا میں یہ روایت ہے، لوگوں کو ہائوس میں بلایا جائے جو اپنے آپ کو مقدس گائے سمجھتے ہیں، میں بھی گواہ ہوں کئی بار بلانے پر ایک مرتبہ نہیں آئے۔ ایک ہائیکورٹ کہتی ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد مداخلت نہیں کرنی، صوبہ کے پی کے میں احتساب کمیشن بند کردیا گیا تب عدالت خاموش رہی۔ باقی سارے صوبوں میں احتساب ہوا، کے پی میں کیوں بند ہوا، ادارے کو تالہ لگا دیا گیا۔ خود کو مدینہ کی ریاست کہتے رہے جہاں اپنی حکمرانی ہے وہاں ادارہ بند کردیا۔

الیکشن کمیشن نے ان کا احتساب کیا، جعلی حلف نامے دیتے رہے، اس ایوان کی بالادستی کا تحفظ ہماری آئینی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ممنوعہ فنڈڈ لوگ اس ادارے کے تحفظ اور اس کی بالادستی پر سمجھوتہ کرتے ہیں۔ ادارے سائلین کو بلا کر ان کی توہین کرتے ہیں، آئینی ادارہ بلاتا ہے تو وہاں پیش نہیں ہوتے، احتساب کا دروازہ بند کرنے پر کسی کا ضمیر نہیں جاگا۔

انہوں نے کہا کہ اقتدار کی تبدیلی پر ہمارے اوپر امریکا کا ملبہ ڈالنے والے خود ہندوستان اسرائیل اور امریکا سے پیسے لیتے رہے۔ جس کو پی اے سی بلائے اس کو خود حاضر ہونا چاہیے۔ اس بارے میں چیئر سے رولنگ دی جائے، اگر اس کا کوئی فعل اس کے عہدے سے مطابقت نہیں رکھتا، اگر اس نے اپنے عہدہ کا غلط استعمال کیا ہے تو وہ کوئی بھی ہے اسے پی اے سی میں پیش ہونا چاہیے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ بحریہ ٹائون کو 50 ارب روپے کے حوالے سے نیشنل کرائم ایجنسی نے حکومت کو براہ راست پیسے بھیجے جنہیں ایڈجسٹ کرلیا گیا۔ القادر یونیورسٹی اور انٹرچینجز کے لئے اراضی کی مد میں یہ پیسے ایڈجسٹ کئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ دن دیہاڑے ڈاکے ڈالنے والوں کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ وہ ایماندار ترین شخص ہے، ان کی حکومت آئین اور قانون کے تحت چلانے کے دعوے کئے جارہے ہیں۔ وزیر دفاع نے کہا کہ ہمیں اس ایوان کی کمیٹیوں کو موثر بنانا ہوگا، یہ کمیٹیاں دراصل اسی ایوان کی ایکسٹینشن ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہر فرد کو پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرتے ہوئے اس کی کمیٹیوں کو جوابدہ ہونا چاہیے، ہم نے سیاسی جماعت سے وابستگی کی بنیاد پر جیلیں کاٹیں، انصاف کے بغیر ریاستیں یا ملک اس طرح قائم نہیں رہتے۔ دیگر اداروں کا احتساب ہو سکتا ہے تو نیب کے ادارے کا احتساب کیوں نہیں ہو سکتا، کیا وہ قانون سے بالاتر ادارہ ہے، یہ سلسلہ اس ملک کے وجود کے لئے خطرناک اور تشویشناک ہے۔ اس ادارے نے ناانصافی، عدم توازن اور استحصال کی حدود پار کردیں۔

گزشتہ روز ایک آئینی ادارے نے ایک شخص کی چوری کو پکڑا، وہ لوگوں کو کہتا ہے کہ جو میرے ساتھ نہیں کھڑا ہوگا تو وہ شرک کرے گا، اگر کوئی غیر مسلم ہمارے نبیﷺ، دین کے خلاف بات کرتا ہے تو اس وقت ہم دھرنے دے کر ملک جام کرتے ہیں، اس کے خلاف اپنے دین اور نبی ﷺکی حرمت کا تحفظ کرنا ہماری ذمہ داری ہے ، یہ لوگوں کی جیبوں سے پیسے نکالتے رہے، اس ملک کے وسائل استعمال کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ادارے کو مضبوط کرنا ہے، آئین کے مطابق اس کو موثر بنانا ہے، یہ اس ایوان، حکومت، اپوزیشن، سپیکر سمیت سب کی ذمہ داری ہے، ہم اس کو تحفظ نہیں دیں گے، موثر نہیں بنائیں گے تو پارلیمنٹ کی بالادستی قائم نہیں ہو سکتی۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمان بالادست ہوگی تو پاکستان کے عوام کو انصاف ملنا شروع ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لئے ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے، پارلیمنٹ کو بھی اپنی کارکردگی کو احتساب کے پیش کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ 75 سال میں سب سے زیادہ یہ ادارہ نشانہ بنا، کبھی آمریت اور کبھی 58۔ 2۔ بی کا نشانہ رہا۔

گزشتہ 14 سال سے خوش قسمتی سے اس ادارے کے ساتھ کوئی حادثہ نہیں ہوا، ہم نے اس ادارے کا وجود برقرار رکھا، کئی بار ہم ایسی مداخلت کے قریب پہنچے جب یہ کہا جارہا تھا کہ آج گئے یا کل گئے لیکن اس ادارے نے اپنا وجود برقرار رکھا، اس کا احساس پورے پاکستان کو ہونا چاہیے، پارلیمنٹ ایک بالادست ادارہ ہے۔ اگر اس کی کسی کمیٹی کو کوئی چیلنج کرے تو پورے پارلیمان کو اس کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے۔