اسلام آباد۔1مئی (اے پی پی):عالمی ہفتہ برائے حفاظتی ٹیکہ جات 2025 کے موقع پر گاوی، ڈوپاسی فائونڈیشن، یونیسیف اورفیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف امیونائزیشن کے اشتراک سے سرگرمیوں کا سلسلہ شروع کیا تاکہ ویکسین اوران تک مساوی رسائی کے بارے میں آگاہی اور شعور بیدار کیا جا سکے۔ یہاں جاری بیان کے مطابق "محفوظ اور صحت مند زندگی، سب کے لیے” کی عالمی تھیم کے تحت اس مہم میں متحرک سرگرمیاں شامل تھیں جن کی قیادت اور نمائندگی مقامی کمیونٹیز نے کی۔
اسلام آباد میں ڈوپاسی فائونڈیشن نے ایک ویکسینیشن میسکوٹ ”ٹیکو بڈی” کو متعارف کرایا جس نے رن اینڈ رائیڈ ایونٹ میں خاندانوں کو تعلیمی مواد اور تفریحی بات چیت کے ساتھ مشغول کیا جس کا مقصد ویکسینز کے حوالے سے غلط فہمیوں کو دور کرنا اور معمول کی حفاظتی ٹیکوں کو فروغ دینا تھا۔ بلوچستان میں’رکشہ آگاہی مہم‘ شہر بھر میں برانڈنگ اور کمیونٹی لیڈرز اور ہیلتھ ورکرز سرگرمیوں نے حفاظتی ٹیکوں سے متعلق پیغامات براہ راست عوام تک پہنچائے اور پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو ویکسین پلانے کی اہمیت پر زور دیا۔اس ہفتے کے اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ڈوپاسی فائونڈیشن کی سی ای او کنز الایمان نے کہا کہ ویکسین صرف تحفظ کی خوراک نہیں ہیں، یہ ایک صحت مند، روشن مستقبل کا وعدہ ہیں، بہت سارے بچے رسائی اور آگاہی میں فرق کی وجہ سے غیر محفوظ رہتے ہیں، یہی چیز ہے جسے ہم تبدیل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
گاوی،یونیسیف اور دیگر عالمی اداروں اور مقامی شراکت داروں جیسے ڈوپاسی فائونڈیشن کی حکومت کے ساتھ اس مضبوط پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی بدولت، خسرہ، پولیو، ایچ پی وی، تشنج، انفلوئنزااورملیریا سے تحفظ فراہم کرنے والی یہ ویکسین حکومت پاکستان کو مفت فراہم کی جا رہی ہیں۔ یہ ویکسین عام طور پر بہت مہنگی ہیں جنہیں حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام (ای پی آئی) کے ذریعے نومولود بچوں سے پانچ سال کی عمر تک مفت لگایا جاتا ہے۔
اگرچہ بہتری واضح ہے لیکن ویکسین کے بارے میں غلط معلومات اور صحت کی دیکھ بھال میں عدم مساوات جیسے چیلنجز بدستور موجود ہیں۔ 2023 میں دنیا بھر میں 22 ملین سے زیادہ بچے خسرہ سے بچائو کی اپنی پہلی ویکسین سے محروم رہے،یہ حالات ویکسین کی مکمل رسائی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہے۔ڈوپاسی فائونڈیشن ہر بچے کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے مقامی اورعالمی تعاون کو یکجا کرتے ہوئے، ان تک پہنچنے کے لیے پرعزم ہے۔عالمی ہفتہ برائے حفاظتی ٹیکہ جات صرف ایک مہم نہیں بلکہ ایک صحت مند، بیماریوں سے محفوظ پاکستان کے لیے ہمارے اجتماعی کوششوں کی مثال ہے۔