ڈاکٹر ثانیہ نشتر کا بین الپارلیمانی یونین اور ورلڈ فوڈ پروگرام کی تقاریب سے خطاب، غذائیت پر مبنی سماجی تحفظ کے امور کے حوالے سے پاکستانی نقطہ نظر پیش کیا

44
خواتین کو اقتصادی سرگرمیوں میں شریک کرنے کیلئے ڈیجیٹل مالی سہولیات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ، ڈاکٹر ثانیہ نشتر

اسلام آباد۔24جون (اے پی پی):وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ سینیٹر ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے بین الپارلیمانی یونین ( آئی پی یو )اور ورلڈ فوڈ پروگرام ( ڈبلیو ایف پی) کے زیر اہتمام دو اعلی سطح کی بین الاقوامی تقاریب سے خطاب کیا اور غذائیت پر مبنی سماجی تحفظ کے امور کے حوالے سے پاکستانی نقطہ نظر پیش کیا ۔

انہوں نے کہا کہ کووڈ ۔19 کی وبا کی صورتحال کے بعد احساس حکمت عملی میں غذائیت کا پہلوشامل کیا گیا ہے ۔ وبا سے اس امر کا اظہار ہوا ہے کہ غربت کے خاتمے میں غذائیت کا کردار اہم ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ احساس کا مقصد مساوات کو فروغ دینا ہے، جس میں انسانی ترقی میں سرمایہ کاری شامل ہے اور صحت مند غذا کی فراہمی بنیادی جز ہے ۔ لہذا، غذائیت احساس فریم ورک کا ایک بہت ہی اہم حصہ ہے اور پروگرام اس پر مکمل توجہ مرکوز کرتا ہے ۔تخفیف غربت و سماجی تحفظ ڈویژن کے مطابق آئی پی یو کے اعلیٰ سطحی اجلاس کا عنوان صحت، مساوات اور استحکام کیلئے خوراک کے نظام میں تبدیلی تھا ۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے اس پر زور دیا کہ 2030تک پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کیلئے خوراک کے نظام میں تبدیلی ہماری کوششوں کا مرکز ہونا چاہیئے ۔

ڈاکٹر ثانیہ کے ہمراہ دیگر نامور مقررین میں اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اور ایس یو این مومنٹ کوآرڈینیٹر گیرڈاوربرگ، 2021 میں اقوام متحدہ کے فوڈ سسٹم سمٹ میں سیکرٹری جنرل ایگنیس کالیباٹا اور ڈائریکٹر جنرل ایف اے او کیو یو ڈونگیو شامل تھے ۔

اجلاس میں پارلیمنٹ کی کارکردگی کے انٹری پوائنٹس کی نشاندہی کی گئی تاکہ پیداوار، پروسیسنگ ، تقسیم، صحت، مساوات اور پائیدار ترقی سے متعلق خوراک کی کھپت کو یقینی بنایا جائے ۔ اجلاس کے نتائج نے اقوام متحدہ کے فوڈ سسٹم سمٹ کی تیاری کے عمل پر روشنی ڈالی ۔ آئی پی یو قومی پارلیمانوں کی عالمی تنظیم ہے اور دنیا کے 193ممالک میں سے 179ممالک اس کے ممبر ہیں ۔قبل ازیں ، ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی ) نے ایگزیکٹو بورڈ کے ممبران اور شراکت دارو ں کیلئے ایک تقریب کا انعقاد کیا جس میں بھوک کے خاتمے تک رسائی کیلئے قومی سماجی تحفظ میں ڈبلیو ایف پی کے تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔

متعدد شراکت داروں کو ڈبلیو ایف پی کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر کے بارے میں تبادلہ خیال کیلئے مدعو کیا گیا تھا جن میں جرمنی کے بی ایم زیڈ، سویڈن کے سیڈا اور ورلڈ بینک شامل تھے ۔ پاکستان کی جانب سے ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے غذائیت کے مسئلے سے نمٹنے میں احساس کے مرکزی کردار پر روشنی ڈالی ۔کووڈ۔19 کی وبا کی صورتحال کے بعد احساس کے سماجی تحفظ کے کردار کی خاکہ نگاری کرتے ہوئے،

ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے بتایا کہ احساس نشوونما ایک مشروط مالی معاونت کا پروگرام ہے جس کا مقصد حاملہ اور دودھ پلانے والی ما ئوں کے ساتھ مل کر دو سال سے کم عمر بچوں میں اسٹنٹنگ (نامکمل نشو ونما )کے مسئلہ سے نمٹنا ہے ۔ پہلے مرحلے میں ، پاکستان کے 14اضلاع میں 50احساس نشوونما مراکز کھولے گئے ۔ احساس کے قومی غربت سے متعلق گریجویشن اقدام میں بکریوں اورمرغیوں کی فراہمی ،

کم آمدنی والے خاندانوں کو سبزیوں اور پھلوں کی مقدار میں اضافے میں مدد کیلئے کچن گارڈننگ پر زور دیا گیا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ مزدورں کیلئے سوپ کچن اورٹرک کچن اقدامات غریب طبقے کی غذائی کمی کو پور ا کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔تقریب میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ ڈبلیو ایف پی قومی سماجی تحفظ اور حکومتوں کے سماجی تحفظ کے مقاصد کے حصول کیلئے کس طرح تعاون کررہی ہے ۔