کے سی سی آئی کا درآمد شدہ ری سائیکل پلاسٹک پر مکمل پابندی کا مطالبہ

149
ملکہ کوہسارمری کو پلاسٹک فری بنانے کی مہم کاآغاز کر دیا گیا

کراچی۔ 26 ستمبر (اے پی پی):کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر محمد طارق یوسف نے حکومت کو ری سائیکل پلاسٹک کی درآمد کو منفی فہرست میں ڈالنے یا اس پر مکمل پابندی عائد کرنے کی تجویز پیش کی ہے چونکہ پڑوسی ملک سے سمگل شدہ پلاسٹک کی بڑی مقدار اور قیمت کے لحاظ سے مس ڈیکلریشن نے کسٹمز ڈیوٹی، سیلز ٹیکس، ودہولڈنگ ٹیکس اور دیگر محصولات کی مد میں صرف 3 ماہ میں 10 سے 12 ارب روپے کا خطیر نقصان پہنچایا ہے جس سے خدشہ ہے کہ یہ نقصان 40 ارب روپے سالانہ تک جائے گا۔

کراچی چیمبر سے منگل کو جاری اعلامیہ کے مطابق صدر کے سی سی آئی کی جانب سے وفاقی وزیر برائے تجارت صنعت و پیداوار ڈاکٹر گوہر اعجاز کو بھیجے گئے خط میں گزشتہ 4 سے 6 ماہ کے دوران پلاسٹک (پولی تھیلین) کی تمام حالیہ درآمدات کا فرانزک آڈٹ کرانے کی تجویز بھی دی گئی ہے اور درخواست کی گئی ہے کہ درآمد کنندگان سے کہا جائے کہ وہ واضح کریں کہ پڑوسی ملک سے درآمد کے لیے غیر ملکی سپلائرز کو ادائیگی کیسے اور کس چینل کے ذریعے کی گئی ہے،اس اقدام کے نتیجے میں ترسیلات پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور سمگلنگ کی مالی اعانت کے لیے گرے چینلز کے ذریعے جانے والی بڑی رقوم اور پڑوسی ملک سے درآمدات کے مس ڈیکلریشن کی روک تھام اور بینکنگ چینلز کے ذریعے لین دین کو ترغیب ملے گی نیز انٹربینک مارکیٹ میں پاکستانی روپے کی قدر کو بھی سہارا ملے گا۔

طارق یوسف نے کہا کہ پاکستان میں ری سائیکل شدہ پلاسٹک درآمد کرنے کی کوئی ضرورت یا منطق نہیں ہے کیونکہ ملک پہلے ہی پلاسٹک کا کچرا اور اسکریپ کی بڑی مقدار پیدا کرتا ہے جسے پاکستان میں کام کرنے والے بہت سے یونٹس ری سائیکل کرتے ہیں لہٰذا کسی دوسرے ملک سے کچرا خریدنے کا کوئی فائدہ نہیں۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ ایران سے پولی تھیلین اور پولی پروپلین (ایچ ایس 3901 اور 3902) کی تمام درآمدات کا اندازہ ایس اینڈ پی پولیمر اسکین رپورٹ کی ہفتہ وار رپورٹس کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے جو کہ کراچی پورٹ، پورٹ قاسم اور ڈرائی پورٹس پر کئی سالوں سے کسٹمز اسٹیشنز کے ذریعے عمل میں آ رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پڑوسی ملک سے درآمد کیے جانے والے تمام مواد کو پرائم گریڈ میٹریل سمجھا جائے چاہے اسے ری سائیکل شدہ پلاسٹک یا کسی اور مواد کی شکل میں ہی کیوں نہ ڈکلیئر کیا گیا ہو۔کے سی سی آئی کے صدر نے کہا کہ پلاسٹک کے خام مال خصوصاً پولی تھیلین کی اسمگلنگ جس میں پی سی ٹی کوڈ 3901 ہے پڑوسی ملک سے بڑی مقدار میں بلا روک ٹوک لایا جارہا ہے کیونکہ گزشتہ 3 ماہ کے دوران 50000 میٹرک ٹن سے زیادہ پولی تھیلین ری سائیکل شدہ پلاسٹک کی آڑ میں اسمگل یا درآمد کی گئی ہے جس کی جی ڈی میں بہت کم قیمت کا اعلان کیا گیا ہے۔

نام نہاد ری سائیکل شدہ پلاسٹک کی قیمت450 ڈالر بتائی گئی ہے جبکہ بنیادی مواد کی اصل قیمت 1050ڈالر سے 1100ڈالرکے درمیان ہے جسے ری سائیکل پلاسٹک کے طور پر درآمد کیا جاتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پڑوسی ملک سے درآمد شدہ پلاسٹک کی مقدار کو کنٹینر یا ٹرک میں لوڈ ہونے والی اصل مقدار سے کم ڈکلیئر کیا جاتا ہے،جیسا کہ ایک کنٹینر کا وزن 25 میٹرک ٹن ہے جبکہ جی ڈی میں مقدار کو 17 میٹرک ٹن بتایا جاتاہے جس کے نتیجے میں محصولات کے نقصان میں اضافہ ہوتا ہے۔

طارق یوسف نے کہا کہ عام حالات میں پاکستان میں پولیمر (پلاسٹک) کی ضرورت اور درآمد 1.6 ملین میٹرک ٹن ہے لیکن اندازے کے مطابق اب یہ کہیں کم ہو کر 0.8 ملین سے 1.0 ملین میٹرک ٹن رہ جائے گی جبکہ پاکستان کی پلاسٹک کی باقی ضرورت پڑوسی ملک سے اسمگل شدہ اور مس ڈیکلریشن شدہ درآمدات کے ذریعے پوری کی جا رہی ہے۔

مزید برآں تمام اسمگلنگ اور کم قیمت درآمدات کو حوالہ،گرے چینل کی منتقلی کے ذریعے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے جس کا مطلب ہے کہ غیر ملکی ترسیلات زر جسے بصورت دیگر بینکنگ چینلز کے ذریعے بھیجا جانا چاہیے اب گرے چینلز کی طرف موڑ دیا گیا ہے،سمگلروں اور خلاف قانون درآمد کنندگان کی زیادہ مانگ نے انٹربینک اور حوالہ کے نرخوں میں 20 سے 25 روپے فی ڈالر کا بڑا فرق پیدا کر دیا ہے جو کہ گھریلو ترسیلات میں 4 ارب ڈالر کی کمی سے ثابت کرتا ہے۔