اسلام آباد۔15جنوری (اے پی پی):ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے زیر اہتمام پاکستان کے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں انتہائی اہم اور فوری مسائل کے حل کے لیے 54 ویں وائس چانسلرز (وی سیز) کمیٹی کا دو روزہ اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں ملک بھر کی سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز نے شرکت کی تاکہ طلباء کی روزگار کی صلاحیت میں اضافہ، اعلیٰ تعلیمی اداروں (ایچ ای آئیز) کی خود کفالت کے حصول، ڈیجیٹلائزیشن کی جانب بڑھنے اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو بڑھانے کے حل تلاش کیے جاسکیں۔ چیئرمین ایچ ای سی پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد نے اپنے استقبالیہ کلمات میں اجلاس کا ایجنڈا بیان کیا۔
انہوں نے مالی بحران کے باوجود خود کفالت کے حصول، روزگار میں اضافہ، پاکستان کے آئی ٹی اور کاروباری شعبے کو فروغ دینے اور ملک کے اعلی تعلیم کے شعبے کی ضروریات کو بہتر بنانے کے لئے سمسٹر سسٹم کو مقامی بنانے سمیت دیگر امور پر روشنی ڈالی۔ایجنڈے میں منشیات سے پاک کیمپسز، یونیفائیڈ پے سکیل متعارف کرانے اور اساتذہ کی تقرری کے لیے اہلیت کے نظر ثانی شدہ معیار پر غور و خوض کے ساتھ ساتھ ایچ ای سی کی پالیسیوں پر عمل درآمد کے دوران ایچ ای آئیز کو درپیش چیلنجز کا حل تلاش کرنا اور وائس چانسلرز کمیٹی کے چیئرمین کا انتخاب بھی شامل تھا۔
بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظہور احمد بازئی وائس چانسلرز کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے۔چیئرمین ایچ ای سی نے وائس چانسلرز کے اجلاس کو دانشوروں کا پلیٹ فارم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹیوں کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے پاکستان کے مستقبل کی وضاحت کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا کام تعلیم فراہم کرنا ہے لیکن میرے خیال میں ہم اپنے نوجوانوں کو ایک شاندار پاکستان دینے کے ذمہ دار ہیں اور آج ہماری یونیورسٹیوں کو درپیش چیلنجز کو حل کیے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ وزیر اعظم پاکستان میں گریجویٹ روزگار، آئی ٹی سیکٹر اور بزنس مارکیٹ کو فروغ دینے کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات کے بارے میں پوچھ گچھ کے لئے باقاعدگی سے اجلاس منعقد کر رہے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ ہم صرف مسائل پر بات چیت سے آگے بڑھیں اور ان چیلنجز کے حل پر غور کریں۔
اجلاس میں تقریبا ً70 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سے تیار کردہ تکنیکی سہولیات پر پریذنٹیشن پیش کی گئی۔ ان میں سے کچھ ٹیکنالوجیز میں 8 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سے تیار کردہ ٹیئر تھری ڈیٹا سینٹر ، 5.2 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سے قائم کردہ سافٹ ویئر ڈیفائنڈ نیٹ ورک "السدیم”، طلباء کو اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کمپیوٹنگ پاور فراہم کرنے کے لئے کلائوڈ سلوشن وغیرہ شامل ہیں ۔ کلائوڈ اور ایچ پی سی سلوشن میں 19 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے اور ہارڈ ویئر کے بہترین اجزاء کو اس بات کو یقینی بنانے کے لئے استعمال کیا گیا ہے کہ ہر تعلیمی ادارہ اسے استعمال کرسکے۔ "فیکلٹی کے لئے یونیفائیڈ پے سکیل” اور "ایچ ای سی کی پالیسیوں کے نفاذ کی صورتحال اور کونسلز کا کردار” کے موضوع پر دو اور پریذنٹیشنز بھی منعقد کی گئیں۔
پہلی پریذنٹیشن میں کارکردگی پر مبنی تنخواہ کا پیمانہ متعارف کرانے، اہلیت کے نئے معیار جو اشاعت کی تعداد پر تحقیق کے اثرات کو ترجیح دیتا ہے اور تدریسی مہارت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ دوسری پریذنٹیشن میں ایچ ای سی کی پالیسیوں پر عمل درآمد کے دوران یونیورسٹیوں کو درپیش چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا گیا اور حل تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی۔ پریذنٹیشنز کے بعد سوالات و جوابات کا سیشن ہوا جس میں وائس چانسلرز کی جانب سے قابل قدر آراء اظہار کیا گیا۔اس سے قبل اعلیٰ تعلیم کا معیار اور گریجویٹس کے روزگار کے بارے میں تصورات کے ذیلی موضوعات پر "اعلیٰ تعلیم کا معیار – آگے بڑھنے کا راستہ” کے موضوع پر ایک سیشن منعقد کیا گیا۔
سیشن کی نظامت ایچ ای سی کے کنسلٹنٹ کوالٹی ایشورنس پروفیسر ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی نے کی جبکہ وائس چانسلر ورچوئل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر ارشد سلیم بھٹی، وائس چانسلر فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر بشریٰ مرزا، وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد حفیظ، وائس چانسلر شاہ عبداللطیف یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر یوسف خوشک اور ڈائریکٹر آئی ایم سائنسز پروفیسر ڈاکٹر عثمان غنی نے شرکت کی۔ پینل نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ملازمت کے لئے تعاون، تنقیدی تجزیہ، سافٹ سکلز، مارکیٹ سے منسلک نصاب کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں میں تدریسی معیار کی عمدگی جیسی مہارتیں ضروری ہیں۔