اقوام متحدہ۔16جنوری (اے پی پی):پاکستان نےیمن کے تنازعے کو سفارتی اور سیاسی طریقوں سے حل کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مسئلہ کا واحد حل یہی راستہ ہے۔یہ بات اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کے دوران کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان یمن کے تمام فریقوں پر زور دیتا ہے کہ وہ باہمی اختلافات کے حل کے لئے مذاکراتی و سیاسی عمل کو ترجیح دیں۔
یمن کی صورتحال بارے بحث کے دوران انہوں نے کہا کہ ہم بالخصوص سعودی عرب اور اومان کے طے شدہ فریم ورک کے تحت اس تنازعے کے سیاسی تصفیے کے لئے اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔سفیر منیر اکرم نے یمن میں طویل تنازعے بارے میں پاکستان کی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس تنازعے نے کثیر جہتی بحران کو جنم دیا ہے جس میں اقتصادی تباہی، موسمیاتی اثرات اور جدید تاریخ کی بدترین انسانی ہنگامی صورتحال شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ یمن کا بحران جو 2014 میں حوثی باغیوں (جنہیں سرکاری طور پر انصار اللہ کے نام سے جانا جاتا ہے)کے دارالحکومت صنعا پر قبضے کے بعد مزید خراب ہوا، اس وقت ملک پیچیدہ سیاسی اور فوجی تناؤ کا شکار اور 17 ملین سے زیادہ لوگ جو ملکی آبادی کا نصف ہیں ک انحصار انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد اور تحفظ پر ہے۔
پاکستانی سفیر نے بحیرہ احمر میں تجارتی اور بحری جہازوں پر حوثیوں کے حملوں پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا، ان کا کہنا تھا کہ اس سے عالمی تجارت، علاقائی استحکام اور ماحولیات کو خطرہ ہے۔
15 رکنی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی جس میں حوثیوں سے بحیرہ احمر میں تجارتی اور تجارتی جہازوں پر تمام حملے بند کرنے کے اپنے پہلے مطالبے کی توثیق کی گئی اور صورت حال پر نظر رکھنے کا مطالبہ کیا گیا۔ پاکستان نے اس قرار داد کی حمایت کی جس کے حق میں 12 ووٹ ڈالے گئے ، 3 اراکین (الجزائر، چین، روس)غیر حاضر رہے جبکہ مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں ڈالا گیا۔
اپنے تبصروں میں منیر اکرم نے دسمبر 2023 کے امن مذاکرات میں ہونے والی اہم پیش رفت پر پاکستان کی تعریف کی جس کی وجہ سے فریقین کے درمیان ملک گیر جنگ بندی ، اقتصادی بحالی ، تیل کی برآمد اور ادائیگیوں کو یقینی بنانے کے لیے اہم معاہدے ہوئے۔انہوں نے کہا کہ اب تک حاصل ہونے والی کامیابیوں کو برقرار رکھنے،لائحہ عمل کی تشکیل اور وعدے پورے کرنا پائیدار امن کے لیے ناگزیر ہے۔
انہوں نے صنعا کے بین الاقوامی ہوائی اڈے، بحیرہ احمر کی بندرگاہوں اور پاور سٹیشنوں سمیت یمن کے شہری بنیادی ڈھانچے پر اسرائیلی فضائی حملوں میں شہری ہلاکتوں پر گہرے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس عمل سے یمن کے سنگین انسانی اور سیاسی بحران میں اضافہ ہوا ۔
یمن کے انسانی بحران کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ دنیا کے سنگین ترین بحرانوں میں سے ایک ہے، اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ تقریباً نصف آبادی 17 ملین افراد کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے جن میں سے 3.5 ملین شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات، بشمول سیلاب اور خشک سالی انسانی بحران کو بڑھاتے ہیں جس سے 4.5 ملین افراد بے گھر ہو جاتے ہیں، اس سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط اور مربوط بین الاقوامی ردعمل کی ضرورت ہے۔ پاکستانی مندوب نے عطیہ دہندگان پر زور دیا کہ وہ یمن کے لئے 2025 کے انسانی امدادی رسپانس پلان میں اپنا حصہ بڑھائیں۔
انہوں نے بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حوثیوں کی طرف سے اقوام متحدہ اور انسانی ہمدردی کے عملے کی حراست پر بھی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم سیکرٹری جنرل کے ان کی فوری اور غیر مشروط رہائی کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں۔ بحث کا آغاز کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ایک سینئر اہلکار نے کہا کہ یمن کا تنازعہ تیزی سے بین الاقوامی ہو گیا ہے، حملوں اور جوابی حملوں میں اضافے سے امن کے امکانات میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ 2022 کی جنگ بندی کے بعد سے موجود شہریوں کے لئے سلامتی کے بہتر حالات موجود ہیں۔ تنازعے بارے تفصیلات بتاتے ہوئے یمن کے لئے سیکرٹری جنرل کے خصوصی ایلچی ہانس گرنڈ برگ نے کہا کہ انصار اللہ گروپ اسرائیل میں اپنے حملے تیز کر ر ہا ہے اور بحیرہ احمر میں حملے جاری رکھے ہوئے ہے جس سے امریکا اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی جانب سے جوابی حملے کئے جا رہے ہیں۔
ایلچی نے کہا کہ حالیہ اسرائیلی فضائی حملوں سے صنعا کے بین الاقوامی ہوائی اڈے اور الحدیدہ کی بندرگاہ سمیت اہم شہری بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا ہے جس سے انسانی بنیاد پر امداد ی سرگرمیاں متاثر ہوئیں ،ہمیں امن کے لیے فوری طور پر کشیدگی میں کمی اور حقیقی مصروفیت کی ضرورت ہے، تقریباً 40 ملین یمنی طویل انتظار کر چکے ہیں جہاں علاقائی کشیدگی شہ سرخیوں پر حاوی ہے، وہیں کئی محاذوں پر اضافہ ہوا ہے۔