اسلام آباد۔13اکتوبر (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی بنیادی وجہ سابقہ حکومتوں کے لئے گئے قرضے ہیں، حکومت نے اس سال 12 ارب ڈالر کا قرضہ واپس کرنا ہے تو سبسڈی کیلئے کیا بچے گا ،سابقہ حکمرانوں نے قرضے لے کر بیرون ملک جائیدادیں بنائیں، دنیا کی 66 فیصد آبادی اسلام آباد سے ساڑھے تین گھنٹے کی مسافت پر ہے، پاکستان عرب ممالک کی فوڈ مارکیٹ تک رسائی حاصل کر سکتا ہے، ہم چیزیں تو تیار کرلیتے ہیں لیکن ان کی سرٹیفکیشن پر توجہ نہیں دیتے، ہمیں اپنی اشیاءکو عالمی معیار کے مطابق بنانا ہوگا، بد قسمتی سے گزشتہ 20 سال سے ہم ہر چیز باہر سے درآمد کر رہے ہیں، دنیابھر میں اشیاءکی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری سے ہی ترقی کی جا سکتی ہے، بہت جلد پاکستان اپنے پائوں پر کھڑا ہوگا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو یہاں سی ای او سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جرمنی پاکستان سے تقریباً 300 سے 400 ملین ڈالر کے سرجیکل آلات خرید کر بھارت کو 700 ملین ڈالر میں فروخت کر دیتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس اپنی برآمدات کو ویلیو ایڈ کرنے کے بہت سے مواقع موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ایک منفرد حیثیت ہے، دنیا کی تقریباً 66 فیصد آبادی اسلام آباد سے ساڑھے تین گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ سعودی عرب، وسطی ایشیا، بحرین، دوبئی کی فوڈ باسکٹ اپنے ماحول کی وجہ سے ہمیشہ درآمدات پر مبنی رہے گی، پاکستان اپنی فارمنگ اور لائیو اسٹاک میں جدت لا کر عرب ممالک کی فوڈ مارکیٹ تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہم نے حلال اتھارٹی قائم کی، سرٹیفیکیشن کی، ہم چیزیں بناتے ہیں لیکن اس کی سرٹیفیکیشن پر توجہ نہیں دیتے۔ انہوں نے تقریب میں موجود تمام سی ای اوز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ جو چیز بھی تیار کریں اس کی کوالٹی عالمی معیار کے مطابق رکھیں۔
انہوں نے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں کموڈیٹی پرائس میں اضافہ ہوا ہے، تیل کی قیمتیں بھی بڑھی ہیں، 2018ءمیں جب پی ٹی آئی کی حکومت اقتدار میں آئی تو پام آئل کی قیمت 518 ڈالر میٹرک ٹن تھی جو اس وقت 1200 ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، اسی طرح تیل اور گندم کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کووڈ کی وجہ سے پوری دنیا میں انفلیشن آئی۔ اگر ہمارے پاس سرپلس ڈالر ہوں تو ہم بیرونی دنیا سے مہنگی چیزیں خرید کر سبسڈائز کر کے فراہم کر سکتے ہیں لیکن ہمارے پاس ڈالر نہیں ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ بیس سالوں میں ہم نے اپنا کچھ نہیں بنایا، ہم نے ہر چیز بیرون دنیا سے درآمد کی۔
انہوں نے کہا کہ دوبئی ایک چھوٹا شہر ہے جس کی تیس سے چالیس لاکھ آبادی ہے، اس کی معیشت کی مثالیں 22 کروڑ عوام پر پوری نہیں اتر سکتیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انڈسٹری بند کر دی گئی تھی، تمام چیزیں درآمد کی جاتی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ کووڈ کے دوران ہمیں سینی ٹائزر کی ضرورت تھی، ہمارے پاس ایتھانول ہوتا ہے، ہم را مٹیریل بیرون ملک بھیج دیتے لیکن اپنا سینی ٹائزر نہیں بناتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب 2018ءمیں ہم اقتدار میں آئے تو ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری بند ہو چکی تھی، ہم نے اسے بحال کیا۔ انہوں نے کہا کہ ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کی جائے۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اس وقت الیکٹرک گاڑیاں نہ آنے کی بڑی وجہ چپ کا موجود نہ ہونا ہے کیونکہ امریکہ کی کمپنیاں چین کو چپ فراہم نہیں کر رہیں، پوری انڈسٹری بیٹھ گئی ہے، ایسے وقت میں پاکستان جیسے ملکوں کے پاس موقع ہے کہ وہ اس خلاءکو پُر کریں۔
انہوں نے کہا کہ1947ءسے 2008ءتک 6 ٹریلین کاقرضہ لیا گیا، 2008ءسے 2018ءتک 23 ہزار ارب روپے کے قرضے لئے گئے، 1947ءسے لے کر 2008ءتک لئے گئے قرضے میں ہم نے اسلام آباد شہر بنایا، گوادر خریدا، ہم نےدفاع کو مستحکم کیا، موٹر ویز بنائیں، ہم ایٹمی طاقت بنے لیکن اگلے دس سالوں میں 23 ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا گیا جو دوبئی، لندن اور امریکہ چلا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس سال حکومت کو 12 ارب ڈالر کا قرضہ واپس کرنا ہے تو اس صورت میں حکومت کے پاس سبسڈی کے لئے کیا رہ جائے گا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ مہنگائی کی بنیادی وجہ سابقہ حکمرانوں کی جانب سے لئے گئے بھاری قرضے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود کورونا کے دوران ہماری کارکردگی سب کے سامنے ہے، آج ہماری کنسٹرکشن، ٹیکسٹائل اور سافٹ ویئر انڈسٹریز جس طریقے سے آگے بڑھ رہی ہیں مجھے امید ہے کہ آئندہ چند سالوں میں تمام سمتیں تبدیل کر کے ہم اپنےپائوںپر کھڑا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ قومیں اس وقت تک آگے نہیں جا سکتیں جب تک وہ اپنے پائوں پر کھڑا نہ ہوں۔