ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کالعدم قرار، چوہدری پرویز الٰہی منتخب وزیراعلیٰ پنجاب ہوں گے، عہدہ کا حلف لیں، سپریم کورٹ

170
سپریم کورٹ
سپریم کورٹ

اسلام آباد۔26جولائی (اے پی پی):سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی رولنگ کیس میں چوہدری پرویز الہی کی درخواست منظور کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی منتخب وزیراعلیٰ پنجاب ہوں گے۔

منگل کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سنایا۔11 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ میں عدالت نے حکم دیا کہ چوہدری پرویز الٰہی منتخب وزیراعلیٰ پنجاب ہوں گے، چیف سیکرٹری پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کا بطور وزیراعلیٰ نوٹیفکیشن جاری کریں، گورنر پنجاب آج رات ساڑھے گیارہ بجے تک چوہدری پرویز الٰہی سے وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدہ کا حلف لیں۔ گورنر کے حلف نہ لینے کی صورت میں صدر مملکت، چوہدری پرویز الٰہی سے بطور وزیراعلیٰ پنجاب حلف لیں۔

عدالت نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ حمزہ شہباز نے جو بھی قانونی کام کئے ہیں وہ برقرار رہیں گے تاہم ان کی کابینہ کے اراکین، معاونین خصوصی، مشیران سمیت دیگر عہدے غیرقانونی ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں مزید کہا ہے کہ معاونین خصوصی اور دیگر عہدیدار اپنے عہدے فوری طور پر چھوڑ دیں۔

سپریم کورٹ نے گورنر پنجاب، ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی اور چیف سیکرٹری پنجاب سمیت تمام فریقین کو فیصلہ کی کاپی فی الفور پہنچانے کی ہدایت کی ہے۔ قبل ازیں دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ روز عدالت میں صرف پارٹی سربراہ کی ہدایات پر عمل کرنے کے حوالے سے دلائل دیئے گئے، ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں ہے، فریقین کے وکلاء کو بتایا تھا کہ آئین گورننس میں رکاوٹ کی اجازت نہیں دیتا، صدر کی سربراہی میں 1988 میں نگران کابینہ سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دی تھی،

عدالت کا موقف تھا کہ وزیراعظم کے بغیر کابینہ نہیں چل سکتی، فل کورٹ کی تشکیل کیس لٹکانے سے زیادہ کچھ نہیں تھا، ستمبر کے دوسرے ہفتے سے پہلے ججز دستیاب نہیں، کیا سترہ میں سے آٹھ ججز کی رائے کی سپریم کورٹ پابند ہو سکتی ہے؟ فل کورٹ بنچ کی اکثریت نے پارٹی سربراہ کے ہدایت دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا، عدالتی بائیکاٹ کرنے والوں نے اتنی گریس دکھائی ہے کہ بیٹھ کر کارروائی سن رہے ہیں، جو مجھے جانتے ہیں انہیں پتہ ہے میں اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کرتا ہوں۔

آئین میں واضح ہے پارلیمانی جماعت اپنے طور پر تو کوئی فیصلہ نہیں کرتی، سیاسی جماعت کا فیصلہ پارلیمانی جماعت کو آگاہ کیا جاتا ہے جس کی روشنی میں وہ فیصلہ کرتی ہے، جج کا بار بار اپنی رائے تبدیل کرنا اچھی مثال نہیں ہوتی، جج کی رائے میں یکسانیت ہونی چاہیے، ایک منصف ٹھوس وجہ کے بغیر اپنی رائے تبدیل نہیں کر سکتا، اگر کوئی واضح قانون سامنے آئے تو معذرت کر کے رائے تبدیل کر لوں گا، آرٹیکل 63 اے کی تشریح میں اکیسویں ترمیم کیس کا حوالہ نہیں دیا گیا،

فریق دفاع نے الیکشن کمیشن کے منحرف اراکین کے خلاف فیصلے کا حوالہ دیا ہے، اختیارات پارٹی ہیڈ کے ذریعے ہی منتقل ہوتے ہیں، کوئی شبہ نہیں پارٹی سربراہ کا اہم کردار ہے لیکن ووٹنگ کیلئے ہدایات پارلیمانی پارٹی ہیڈ جاری کرتا ہے، کل عدالت میں بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا تھا، دیکھنا ہوگا سپریم کورٹ کس قانون کے تحت الیکشن کمیشن کے فیصلوں کی پابند ہے؟

یکم جولائی کو وزیراعلیٰ کا الیکشن ضمنی انتخابات کے بعد ہونے کا حکم فریقین کے اتفاق رائے سے تھا، کیا ضمنی انتخابات کے بعد منحرف ارکان کی اپیل تک سماعت روکنے کا اعتراض ہو سکتا ہے؟ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا معاملہ طے ہو چکا، اب مزید تشریح کی ضرورت ہی نہیں، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بھی آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی کوشش کی ہے، کوشش اچھی ہے لیکن ایڈووکیٹ جنرل کی تشریح درست نہیں۔ قبل ازیں ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل عرفان قادر اور پی پی پی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کے روبرو پیش ہو کر مؤقف اپنایا کہ انہیں موکلان کی طرف سے عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بننے کی ہدایت کی گئی ہے۔

عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ وہ عدالت عظمٰی کے گزشتہ روز کے فل کورٹ تشکیل نہ دینے کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کریں گے۔ دوران سماعت پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ اکیسویں ترمیم کیس میں جسٹس جوادایس خواجہ نے آرٹیکل 63 اے کو خلاف آئین قرار دیا تھا، جسٹس جواد خواجہ کی رائے تھی کہ آرٹیکل 63 اے ارکان کو آزادی سے ووٹ دینے سے روکتا ہے، جسٹس جواد خواجہ نے فیصلے میں اپنی رائے کی وجوہات بیان نہیں کیں، میں جسٹس جواد خواجہ کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا، پرویز مشرف دور میں پارٹی سربراہ کی جگہ پارلیمانی سربراہ کا قانون آیا تھا، اٹھارہویں ترمیم میں پرویز مشرف کے قانون کو ختم کیا گیا، جسٹس منیب اختر نے اس موقع پر سوال اٹھایا کہ پارٹی سربراہ کی کیا تعریف ہے؟ کیا پارٹی سربراہ صرف سیاسی جماعت کا سربراہ ہوتا ہے؟۔

اس پر چوہدری پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ ان کی نظر میں جسٹس عظمت سعید کی آبزرویشن آئین کے خلاف ہے، اکیسویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے ایشو نہیں تھا، جسٹس عظمت سعید کی آبزرویشن کی سپریم کورٹ پابند نہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے اس موقع پر سوال اٹھایا کہ پارلیمانی لیڈر والا لفظ کہاں استعمال ہوا ہے؟ کیا پارلیمنٹری پارٹی کی جگہ پارلیمانی لیڈر کا لفظ محض غلطی تھی؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئین کیا کہتا ہے کہ کس کی ہدایات پر ووٹ دیا جائے، کیا پارلیمنٹری پارٹی، پارٹی سربراہ سے الگ ہے؟ علی ظفر نے اس موقع پر موقف اپنایا کہ 2002 میں سیاسی جماعتوں کے قانون میں پارلیمانی پارٹی کا ذکر ہوا، آئین کے مطابق ووٹ کی ہدایات پارلیمنٹری پارٹی دیتی ہے، پارلیمانی جماعت اور پارٹی لیڈر دو الگ الگ چیزیں ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ایک موقع پر ریمارکس دیئے کہ آئین کے تحت پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے پر عملدرآمد کراتا ہے، اٹھارہویں اور اکیسویں ترامیم کے کیسز میں آرٹیکل 63 کی شقوں کا سطحی جائزہ لیا گیا، آرٹیکل 63 اے کے حوالے سے پارٹی لیڈر کا معاملہ ماضی میں کبھی تفصیل سے نہیں دیکھا گیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان اس موقع پر روسٹرم پرآئے اور کہا کہ وہ عدالت کی خدمت میں چند گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں، جس پر جسٹس منیب اختر نے پوچھا کیا وفاقی حکومت حکمران اتحاد کے فیصلے سے الگ ہوگئی ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وہ آرٹیکل 27 اے کے تحت عدالت کی معاونت کرنا چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ فیصلے میں کوئی غلطی نہ ہو جائے اس لئے سب کو معاونت کی کھلی دعوت ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی نے اپنے دلائل میں مؤقف اپنایا کہ پارٹی سربراہ کی ہدایات بروقت آنی چا ہئیں، ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ مجھے چوہدری شجاعت کا خط موصول ہوا۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ چوہدری شجاعت کے وکیل نے کہا خط ارکان کو بھیجا گیا، دوسرے فریق سن رہے ہیں لیکن کارروائی میں حصہ نہیں لے رہے، اس وقت ان کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے اقوام متحدہ میں مبصر ممالک کی ہوتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کیا ووٹنگ سے پہلے خط پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پڑھا گیا۔ سوال یہ بھی ہے کہ خط پولنگ سے پہلے پارلیمنٹری پارٹی کے سامنے پڑھا گیا تھا یا نہیں، دیکھنا ہوگا کہ کیا عدالتی فیصلے کو ٹھیک سے پڑھا گیا یا نہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے فاروق ایچ نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا نائیک صاحب اگر کچھ بہتری آ سکتی ہے تو عدالت سننے کیلئے تیار ہے، فاروق نائیک نے مؤقف اپنایا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ان مقدمات میں ہم پارٹی پالیسی کے پابند ہوتے ہیں۔ وکیل پی ٹی آئی احمد اویس نے اپنے دلائل میں عدالت سے گزارش کی کہ عدالت فیصلے سے قبل کچھ باتیں سامنے رکھے، تین ماہ سے وزیر اعلیٰ پنجاب کا معاملہ زیر بحث تھا، ق لیگ کے تمام ارکان کو علم تھا کہ کس کو ووٹ دینا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کتنے منحرف ارکان نے ضمنی الیکشن میں حصہ لیا؟ جس پر وکیل فیصل چوہدری نے بتایا کہ بیس میں سے 16 نے ن لیگ، دو نے آزاد الیکشن لڑا، جن 18 نے الیکشن لڑا ان میں سے 17 کو شکست ہوئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ فریق دفاع کے مطابق منحرف ارکان کے کیس میں ہدایات پارٹی ہیڈ عمران خان نے دیں، فریق دفاع کا کہنا ہے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم ہوا تو 25 ارکان بحال ہو جائیں گے، فریق دفاع کا کہنا ہے اپیل منظور ہونے سے حمزہ شہباز کے ووٹ 197 ہو جائیں گے، الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے بعد بہت ساری پیشرفت ہو چکی ہے۔ علی ظفر نے اس موقع پر مؤقف اپنایا کہ وزارت اعلیٰ کے الیکشن پر ہائیکورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ پاسٹ اینڈ کلوز ٹرانزیکشن ہو چکی ہے، یکم جولائی کو سپریم کورٹ نے وزارت اعلیٰ کے الیکشن پر متفقہ فیصلہ دیا، رضامندی دیتے وقت حمزہ شہباز عدالت میں موجود تھے،

وزیراعلیٰ اور ڈپٹی سپیکر کے وکلاء میرٹ پر عدالتی سوالات کے جوابات نہیں دے سکے، پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کو ہدایات دے سکتا ہے لیکن ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا، ووٹ کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی نے کرنا ہے، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کا ذکر نہیں۔ ڈپٹی سپیکر نے رولنگ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق نہیں دی، ڈپٹی سپیکر الیکشن کمیشن کے فیصلے کا پابند بھی نہیں ہے، کوئی قانون سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کا پابند نہیں بناتا، اصولی طور پر منحرف ارکان کی اپیلوں کو پہلے سننے کا اعتراض نہیں بنتا، حمزہ شہباز نے سپریم کورٹ میں بیان دیا، حمزہ شہباز نے ضمنی الیکشن پر کوئی اعتراض نہیں کیا، اب ضمنی الیکشن پر اعتراض کیسے کر سکتے ہیں، حمزہ شہباز نے کہا کہ ضمنی الیکشن کے نتائج پر رن آف الیکشن منظور ہے۔ آخر میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے اپنے دلائل میں موقف اپنایا کہ 2015 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ہدایت دے سکتا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر جب تک نظرثانی نہ ہو اس پر عملدرآمد لازمی ہے،

جسٹس منیب اختر نے اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے ہر فیصلے پر عملدرآمد لازمی نہیں، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ فیصلے موجود ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے ہر عدالت کیلئے بائنڈنگ ہیں، جس پر جسٹس منیب اختر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی دلیل عجیب و غریب ہے، وہاں اس کیس میں تو ووٹنگ کا سوال ہی نہیں تھا۔ عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔