حیدرآباد۔26ستمبر (اے پی پی):پبلک اسکول حیدرآباد میں فیسوں میں اضافے اور سینئر اساتذہ کو مراعات نہ دینے پر پبلک اسکول حیدرآباد کے سینئر اساتذہ اور طلباء کے والدین نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔
احتجاجی مظاہرے میں اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ و دیگر پی ٹی آئی رہنمائوں نے اظہار یکجہتی کے طور پر شرکت کی۔ احتجاج کے شرکاء نے بتایا کہ جب سے پبلک اسکول حیدرآباد کو آئی بی اے سکھر سے منسلک کیا گیا ہے ادارہ میں مسائل پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
ادارے کو کاروباری بنایا جارہا ہے فیسوں میں 300 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے ۔سینئر ٹیچنگ فیکلٹی سے نئے بھرتی ہونے والے آئی بی اے اساتذہ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ بیل آؤٹ پیکج کے مقصد کے لیے موصول ہونے والی سرکاری گرانٹ کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔
سینئرز کو پریشان کرنے کے لیے پیشہ ورانہ ڈگری ، تجربہ اور اخلاقیات نہ ہونے کے باوجود تعلیمی کوآرڈینیٹر کے طور پر انتظامی پوسٹوں پر جونیئرز کو سینئرز کی پوسٹوں پر تعینات کیا گیا ہے۔ادارے کو آئی بی اے سکھر کی جانب سے سنبھالنے کے بعد کوئی نتیجہ خیز تعلیمی پیش رفت نہیں ہوئی ہے ادارے میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے والدین پریشان ہیں۔
آئی بی اے اساتذہ کو نظر ثانی شدہ تنخواہ اور پی ایس ایچ ملازمین کو 2013 سکیل کی پرانی تنخواہ دی جاتی ہے جو سراسر زیادتی ہے۔ اس موقع پر احتجاج کے شرکاء سے اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پبلک سکول حیدرآباد نیشنل ایجوکیشن کمیشن 1960 کے تحت قائم کیا گیا فیلڈ مارشل ایم ایوب خان نے 1960 میں افتتاح کیا۔پبلک سکول حیدرآباد نے بہت سے علماء ، سیاستدان ، ڈاکٹر ، انجینئر ، آرمی افسران اور بیوروکریٹ پیدا کیے ہیں۔
ادارہ جب سے آئی بی اے سکھر سے منسلک ہوا ہے ادارہ میں سیاسی مداخلت پیدا ہوگئی ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ ادارے کی کروڑوں کی زمین پر پیپلزپارٹی کے لوگ قبضہ نہ کر لیں۔ ادارے میں بغیر ڈگری کے لوگوں کو سیاسی اقربا پروری کی بنیاد پر مقرر کیا گیا ہے۔ اس پبلک سکول حیدرآباد کو مارچ 2019 میں آئی بی اے سکھر کے وی سی نثار احمد صدیقی کے حوالے کیا گیا۔
پی ایس ایچ کے پرانے ملازمین نظر ثانی شدہ موجودہ تنخواہ پر احتجاج کر رہے ہیں۔ فیسوں میں 300 فیصد اضافہ کیا گیا لیکن کوئی تعلیمی پیش رفت نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں پیپلزپارٹی اداروں کو تباہ کر رہی ہے، سندھ میں تعلیم کا نظام تباہ ہے۔ 13 سالوں میں تعلیم پر 1450 ارب پر خرچ کئے گئے اس کے باوجود 69 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔
دس ہزار اسکول بند کئے جارہے ہیں وزیر اعلیٰ پہلے یہ عوام کو بتائیں کہ جو اسکول بند کئے جارہے ہیں ان کا کیا ہوگا کیا یہ اسکول بھی مویشیوں کے باڑوں میں تبدیل ہونگے۔ حلیم عادل شیخ نے پبلک اسکول کے سینیئر اساتذہ اور طلباء کے والدین سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کو اسمبلی فلور سمیت ہر جگہ اٹھائیں گے‘ سندھ کی تعلیم کو تباہ ہونے نہیں دیں گے۔
بڑے بڑے اداروں میں سیاسی مداخلت ختم ہونی چاہیے۔ سندھ حکومت نے صحت کے نظام کو بھی تباہ کر دیا ہے‘سرکاری اسکولوں کو پرائیوٹ این جی اوز کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
این آئی سی وی ڈی میں چالیس ارب کی کرپشن ریکارڈ ہوئی ہے۔ تعلیم اور صحت عوام کے بنیادی مسائل ہیں پیپلزپارٹی نے سندھ کی عوام سے تمام بنیادی مسائل چھین لئے ہیں اب سندھ میں پیپلزپارٹی کا خاتمہ یقینی ہے۔