دباؤ میں آ کر امریکا سے جوہری مذاکرات نہیں کریں گے، ایران

98
Iran's Foreign Minister Abbas Araqchi
Iran's Foreign Minister Abbas Araqchi

تہران ۔26فروری (اے پی پی):ایران نے کہا ہے کہ وہ دباؤ میں آکر اپنے جوہری پروگرام پر امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کرے گا۔العربیہ اردو کے مطابق یہ بات ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے تہران میں اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کہی۔انہوں نے کہا کہ جب تک زیادہ سے زیادہ دباؤ جاری رہے گا امریکاکے ساتھ براہ راست مذاکرات کا کوئی امکان نہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے سر گئی لاوروف کے ساتھ ایرانی جوہری پروگرام پر قریبی مشاورت کی ہے کیونکہ ہماری ٹیمیں مسلسل رابطے میں ہیں اور ہم یہ رابطے جاری رکھیں گے،ہم نے انہیں تین یورپی ممالک کے ساتھ ہونے والی بات چیت کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا ہے۔

وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام پر اپنے شراکت داروں روس اور چین کے ساتھ ہم آہنگی جاری رکھے گا،کہا کہ ہم نے اپنے جوہری پروگرام کے معاملے پر بات چیت کی ہے، ہمارے ماہرین براہ راست رابطے میں ہیں جنہیں جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جوہری مذاکرات کے بارے میں ایران کا موقف مکمل طور پر واضح ہے، ہم دباؤ، دھمکیوں یا پابندیوں کے تحت کسی بھی قسم کے مذاکرات میں شامل نہیں ہوں گے، اس لیے جب تک زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی جاری رہے گی ہمارے اور امریکا کے درمیان براہ راست مذاکرات نہیں ہوں گے۔

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ روس کو یقین ہے کہ ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق مسائل کے حل کے لیے سفارتی اقدامات ابھی بھی میز پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایرانی جوہری پروگرام پر مشترکہ جامع منصوبہ بندی اور ارد گرد کی صورتحال بارے مشاورت کی اور ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سفارت کاری کا راستہ اب بھی موجود ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، اس راستے کو طاقت ، دھمکی یا حل کے اشارے کے بغیر زیادہ سے زیادہ موثر طریقے سے استعمال کیا جانا چاہیے۔

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ معاہدہ کرنا پسند کریں گے لیکن ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے کہا کہ امریکاکے ساتھ بات چیت کے لئے موجودہ وقت سود مند نہیں۔ 2018 کی مدت صدارت کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 کے جوہری معاہدے سے دستبرداری اختیار کی اور ایران کی معیشت کو شدید نقصان پہنچانے والی پابندیاں دوبارہ لگائی تھیں۔