بھارت انتہاپسند ہندوتوا کے ایجنڈے اور مذہبی عدم برداشت کی پالیسی پر عمل پیرا، مقبوضہ کشمیر میں اسلامی سکالرز کی گرفتاریاں شروع، بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں علمائے کرام کی گرفتاری اور مذہبی مقامات پر قبضے کی مکروہ بھارتی مہم کا آغاز

غیر وابستہ تحریک کے سربراہی سطح کے رابطہ گروپ کا اجلاس ، تحریک کے چیئرمین الہام علیوف کی کووڈ-19 کے باعث دنیا پر پڑنے والے منفی اثرات کے تدارک اور بحالی کیلئے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی پینل کے قیام کی تجویز

اسلام آباد۔17ستمبر (اے پی پی):بھارت نے انتہاپسند ہندوتوا کے ایجنڈے اور مذہبی عدم برداشت کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر مقبوضہ کشمیر میں اسلامی سکالرز کی گرفتاریاں شروع کردی ہیں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے نیویارک میں ہونے والے اجلاس سے محض چند روز قبل اور جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے جاری اجلاس کے موقع پر بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں علمائے کرام کی گرفتاری مذہبی مقامات پر قبضے کی بھارتی مہم کا آغاز ہے۔

ہفتہ کو میڈیا رپورٹس کے مطابق آزادی پسند قائدین کے بعد اب کشمیریوں کی مضبوط آواز کو دبانے کے لیے ممتاز کشمیری مذہبی رہنمائوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا گیا ہے جو انتہاپسند ہندوتوا کے ایجنڈے کو زبردستی نافذ کرنے کے منظم بھارتی منصوبہ کا حصہ ہے۔ بھارتی قابض حکام نے اپنے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مولانا عبدالرشید داؤدی، مولانا مشتاق احمد ویری، فہیم محمد رمضان اور عبدالمجید ڈار المدنی سمیت کئی ممتاز اسلامی سکالروں کوکالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرکے گرفتار کیا ہے اور انہیں بدنام زمانہ کوٹ بلوال جیل جموں منتقل کردیا گیا ہے۔

ان گرفتاریوں پر کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزاد کشمیر شاخ کے کنوینر محمود احمد ساگر نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی اظہار رائے پر پہلے ہی پابندی عائد ہے کیونکہ آزادی پسند کارکنوں اور صحافیوں پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیا جا رہے ہیں، اب کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے لئے انہوں نے مذہبی سکالرز کو گرفتار کیا ہے، ان اقدامات کا سب کا بڑا مقصد کشمیریوں کو اپنی آزادی کے مطالبے کو ترک کرنے پر مجبور کرنا ہے۔

سیاسی کارکنوں اور مبصرین نے اس اقدام کو مقبوضہ علاقے میں ممتاز مذہبی مقامات کے ساتھ ساتھ وقف بورڈ کی اراضی اور املاک پر زبردستی قبضہ کرنے کے بھارتی مذموم منصوبہ کا آغاز قرار دیا ہے۔ بھارت میں برسر اقتدار بی جے پی حکومت نے پہلے ہی وقف بورڈ کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کا کوئی بھی مذموم اقدام پورے مقبوضہ کشمیر میں احتجاج اور بڑے پیمانے پر بھارت مخالف فضا پیدا کرسکتا ہے۔ کشمیری رہنماء سید مشتاق گیلانی نے ”اے پی پی” کو بتایا کہ مذہبی رہنماؤں کو گرفتار کرنا کشمیریوں کو ان سے دور رکھنے کے لیے ایک پیشگی اقدام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان سکالرز کے بڑی تعداد میں پیروکار ہیں اس لیے ان میں کسی بھی طرح کے بھارتی عزائم کے خلاف عوام کو متحرک کرنے کی صلاحیت ہے۔

کشمیری قیادت اس بات کی مسلسل نشاندہی کر رہی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) مقبوضہ جموں و کشمیر کی مسلم شناخت کو ختم کرنے کے لیے مذہبی اور سیاسی لحاظ سے اہم تمام مقامات اور عہدوں پر قبضہ کر رہی ہے۔

کل جماعتی حریت کانفرنس کے وائس چیئرمین شبیر احمد شاہ نے بدنام زمانہ تہاڑ جیل سے ایک پیغام میں اس اقدام کو مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں کھلی مداخلت اور خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ بھارت کی ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے نظریئے سے متاثر فاشسٹ نریندر مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت کشمیریوں سے ہر حق چھیننے کے بعد اب وقف بورڈ کی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ کررہی ہے۔

کشمیریوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارتی حکام نے سری نگر کے مشہور عید گاہ قبرستان پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، جسے کشمیری اپنے تاریخی شہداء کے قبرستان کی وجہ سے انتہائی عزت و تکریم دیتے ہیں۔

بھارتی حکام کی نظریں مختلف خانقاہوں پر بھی ہیں جن میں خانقاہ معلیٰ اور بلبل شاہ بھی شامل ہیں۔ ان مذموم اقدامات کا مقصد کشمیر کی مسلم شناخت کو ختم کرنا ہے۔کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزاد کشمیر شاخ نے بھی ان گرفتاریوں پر سخت احتجاج کیا ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے جنرل سیکرٹری شیخ المتین نے ”اے پی پی” سے گفتگو کرتے ہوئے اس اقدام کو کشمیری مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں کھلی مداخلت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت ایک طرف غیر قانونی طور پرکشمیریوں کی زمینیں چھین کر مقبوضہ علاقہ میں لوگوں کا قتل عام کر رہا ہے جبکہ وہ دوسری جانب کشمیریوں کو ان کے مذہبی ورثے سے محروم کرنے پر تلا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں نہ صرف مذہبی سکالرز کو گرفتار کر رہا ہے بلکہ وہ نوجوان نسل کو مذہب سے دور کرنے اور صوفیوں کی سرزمین میں فحاشی اور عریانی کو فروغ دینے کے لیے مذہبی اداروں کو بھی بند کر رہا ہے۔ اپسالا یونیورسٹی میں امن اور تنازعات کی تحقیق کے پروفیسر اشوک سوین نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں اسلامی اسکالرز کی گرفتاری نے امن کے نامور کارکنوں کو بھی حیران کردیا ہے، کشمیر کے ممتاز اسلامی مذہبی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ ایسا کیوں کیا گیا۔

مقبوضہ کشمیر میں اس وقت تمام آزادی پسند قیادت جیلوں یا گھروں میں نظر بند ہیں جبکہ سینکڑوں صحافی، انسانی حقوق کے کارکن، وکلاء اور سیاسی کارکن بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے طویل عرصہ سے قید ہیں، بھارتی قابض حکام مقبوضہ علاقہ میں ہر اس فرد کو گرفتار کررہے ہیں جو ان کے خیال میں عوام پر اثر انداز ہونے یا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو بے نقاب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ 5 اگست 2019 کے بعد سے جب بھارت میں برسراقتدار مودی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے لاکھوں غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے اور زمینی قوانین کو تبدیل کیا تاکہ بھارتی باشندے کشمیر میں جائیدادیں خرید سکیں، مقبوضہ علاقہ میں انتخابی حلقوں میں ہندوؤں کے حق میں تبدیلیاں بھی کی گئیں ہیں جبکہ 25 لاکھ سے زائد غیر کشمیریوں کو ووٹ کا حق بھی دیا گیا ہے ان تمام اقدامات کا مقصد کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔

ان تمام حقائق کے باوجود عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ کشمیریوں کے دکھوں اور بھارتی ریاستی دہشت گردی پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور شدہ قراردادوں کے باوجود کشمیر اب بھی عالمی ادارے کے ایجنڈے پر حل طلب سب سے پرانا مسئلہ ہے جو عالمی امن کے فروغ میں اپنائے جانے والے دوہرے معیار کو بے نقاب کرتا ہے۔

پاکستان نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ غیر فعال تماشائی نہ بنے کیونکہ بھارت کشمیری عوام کے بنیادی حقوق اور ان کے حق خود ارادیت کو دبانے کے لئے مقبوضہ علاقہ میں ریاستی دہشت گردی کررہا ہے۔

جنیوا میں شروع ہونے والی47 رکنی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں عام بحث کے دوران اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے سفیر خلیل ہاشمی نے کہا کہ انسانی حقوق کونسل کے بعض اراکین کی مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں انسانی حقوق کے جرائم تشویشناک حد تک بڑھ رہے ہیں۔