وزیراعلیٰ پنجاب کیس کی سماعت فل کورٹ بنچ کرے، تین رکنی بنچ کا بائیکاٹ کرینگے ، حکمران اتحاد کی پریس کانفرنس

اسلام آباد۔25جولائی (اے پی پی):حکمران اتحاد نے اس مطالبے کا اعادہ کیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے معاملے کی سماعت تین ججز کے بجائے فل کورٹ بنچ کرے، فل کورٹ بنچ کے فیصلے کو پورا پاکستان تسلیم کرے گا، فل کورٹ بنچ کے ہمارے مطالبے کو مسترد کر دیا گیا، ہم اس بنچ کا بائیکاٹ کرینگے اور اتحادی جماعتوں کے وکلاء مقدمے میں پیش نہیں ہونگے۔

پیر کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ملک میں انصاف کی بالادستی کیلئے فل کورٹ کی تجویز اور مطالبہ کیا، ہمارا مطالبہ ہے کہ تین ججز کے بجائے فل بنچ معاملے کی سماعت کرے، ہمارے وکلاء نے اس موقف کی بنیاد پر عدالت کے سامنے بھرپور دلائل دیئے کہ آئین کے مطابق فل کورٹ بنچ تشکیل دیا جائے، عدلیہ نے تجویز کومسترد کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے کیس کے حوالے سے ہم اس بنچ کا بائیکاٹ کرینگے، اتحادی جماعتوں کے وکلاء مقدمے میں پیش نہیں ہونگے اور اس کا بائیکاٹ کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور پارلیمان کو تجویز دینگے کہ اصلاحات پر مبنی قانون سازی کی جائے تاکہ عدلیہ کے فیصلوں پر قوم اعتماد کرے اور یہ فیصلے سیاسی و معاشی استحکام کا سبب بنیں۔ یہ اصلاحات آنے والے دنوں میں قوم کیلئے نوید سنائیں گی۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ فل کورٹ کا مطالبہ حکمران اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کا تھا، یہ کیس پارلیمان سے متعلق ہے ہم نے آئین و قانون کی بالادستی اور عدلیہ کے وقار کیلئے مطالبہ کیا تھا ،فل کورٹ بنانے کی ہماری بات مانی جاتی تو ساری قوم اس فیصلے کو مانتی۔ حکمران اتحاد نے فیصلہ کیا ہے کہ پنجاب میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے حوالے سے جاری سماعت کا بائیکاٹ کرینگے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ انصاف اور قانون کا تقاضا ہے کہ بنچ پر انگلی اٹھ جائے تو اس سے خود کو الگ کرلیں۔ ہماری درخواست تھی کہ پارلیمان کا معاملہ ہے اس پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے، فل کورٹ بنچ کے فیصلے کو پورا پاکستان تسلیم کرے گا۔ یہ پارلیمانی معاملہ ہے اس پر پوری سپریم کورٹ بیٹھے۔

وزیر منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حمزہ شہباز نے 197 ووٹ لئے تاہم ان کے 20 ووٹ شمار نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ عمران خان کی ہدایت پر پنجاب میں 20 ارکان صوبائی اسمبلی کو ڈی سیٹ کیا گیا۔ اس پر نظرثانی کی بھی درخواست جمع ہے۔ عمران خان نے صدر جماعت کی حیثیت سے یہ ہدایت کی جس پر یہ ارکان ڈی سیٹ ہوئے تاہم دوسری جانب مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی ہدایت بھی معتبر ہونی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت میں وکلاء کی جانب سے بہت سے پیچیدہ معاملات اٹھائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان سیاست کے میدان میں مار کھانے کے بعد عدلیہ کے ذریعے اپنا ایجنڈا آگے بڑھاتے ہیں۔ ہم سپریم کورٹ کو آزاد اور بالادست ادارہ دیکھنا چا ہتے ہیں جو کسی تنازعہ سے مبرا ہو۔ ہمارا مطالبہ فل کورٹ کے ذریعے سماعت کا تھا۔ جس کا فیصلہ تمام فریقین کیلئے قابل قبول ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ اس مطالبے کو مسترد کر کے نجانے کیوں تین جج ہی فیصلہ دینے پر مصر ہیں۔

ایم کیو ایم کے رہنما اسامہ قادری نے کہا کہ اگر اتنی جماعتیں فل کورٹ کا مطالبہ کر رہی ہیں تو اس کو قبول کیا جانا چاہئے۔ یہی انصاف کا تقاضا ہے، ایم کیو ایم اس فیصلے کی حمایت کرتی ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما ہاشم نوتیزئی نے کہا کہ ملک کی تمام بڑی جماعتیں ایک یپج پر ہیں اور مطالبہ کر رہی ہیں کہ آزاد عدلیہ اور انصاف کی بالادستی کی خاطر فل کورٹ بنایا جائے۔ اس سے آئین و قانون کی بالادستی ہو گی۔ فل کورٹ نہ بنایا گیا تو ہم سماعت کا بائیکاٹ کرینگے۔

اسرار ترین نے کہا کہ ہر طرف سے فل کورٹ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے یہ سب سے بڑے صوبے کا معاملہ ہے، پی ٹی آئی پارٹی سربراہ کی ہدایت پر ووٹ نہ دینے والوں کو ڈی سیٹ کیا گیا اور اسی طرح کی ہدایت چوہدری شجاعت حسین نے بھی دی۔ اس پر بھی ایسے ہی عمل ہونا چاہئے۔

فل کورٹ کی تشکیل کا معاملہ ناحق نہیں ہے، فل بنچ میں زیادہ ججز ، مشاورت سے بہتر فیصلہ دے سکتے ہیں، حکمران اتحاد نے فیصلہ کیا ہے کہ تین رکنی بنچ کی سماعت کا بائیکاٹ کرینگے جس کی ہم مکمل سپورٹ کرتے ہیں۔ اسلم بھوتانی نے کہا کہ فل کورٹ کے جائز مطالبہ کو مسترد کیا گیا، جو افسوسناک ہے۔ ہم سب کو ملک کے حالات دیکھنے چاہئیں، پاکستان کو نقصان ہوا تو سب کا نقصان ہو گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں استحکام ہو۔

توقع ہے کہ تین رکنی بنچ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ سے امید ہے کہ بنچ بہتر فیصلہ کرے گا جس سے ملک میں استحکام آئے۔ عبداللہ ننگیال نے کہا کہ تمام جماعتوں کی جانب سے فل کورٹ بنچ تشکیل دینے کا متفقہ مطالبہ کیا گیا۔