موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا میں درجہ حرارت میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے، وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان کا کاپ۔27 کے پارلیمانی اجلاس میں کلیدی خطاب

حالیہ سیلاب جیسی تباہی پہلے نہیں دیکھی گئی‘عالمی حدت میں اضافے سے آئندہ بھی قدرتی آفات آئیں گی، وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمان

شرم الشیخ ۔13نومبر (اے پی پی):وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا میں درجہ حرارت میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے، اس صورتحال میں ہمیں کرہ ارض پر متوقع بحرانوں کے حوالہ سے سنجیدہ رہنے کی ضرورت ہے، کاپ۔ 27 کے فورم پر دنیا اتحاد، اشتراک اور تعاون کا جذبہ رکھتی ہے لیکن اس میں رکاوٹ اس عمل میں کمی ہے۔ وہ اتوار کو یہاں شرم الشیخ میں بین الپارلیمانی یونین کے زیر اہتمام اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلی کانفرنس کا پ۔27 کے پارلیمانی اجلاس میں کلیدی خطاب کر رہی تھیں۔

وزیر موسمیاتی تبدیلی کے خطاب سے قبل پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں اور اس کی وجہ سے وقوع پذیر ہونے والے واقعات کے حوالہ سے ڈاکیومنٹری بھی دکھائی گئی۔ شیری رحمان نے کہا کہ ہم سب کو اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ اور اپنے کرہ ارض کے ساتھ کیا رویہ اپنا رہے ہیں، اس کرہ ارض کے علاوہ ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے کہ ہم کہیں اور آباد ہوں یا کہیں ہجرت کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے رونما ہونے والے سیلاب کے حوالہ سے جو ویڈیو دکھائی گئی اس میں موسمیاتی تباہی کی ایک چھوٹی سی جھلک دکھائی گئی، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی اعتراف کیا کہ انہوں نے اس سے قبل سیلاب سے اتنی شدت کی تباہی نہیں دیکھی۔

شیری رحمان نے فورم کو خبردار کیا کہ عالمی حدت 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ تک ہی قائم نہیں رہے گی بلکہ مستقبل میں یہ 3 ڈگری سے تجاوز کر جائے گی۔ انہوں نے پاکستان میں موسمی تبدیلی کے حوالہ سے بتایا کہ وہ ایک ایسے ملک سے تعلق رکھتی ہیں جہاں گرمی کی شدت میں 3 ڈگری اضافہ ہوا ہے جہاں رہائش کے حوالہ سے بڑے مسائل ہیں، ہمیں انسانیت اور اپنے کرہ ارض پر آنے والے چیلنجوں کے حوالہ سے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس سال پاکستان میں گرمی کی شدت کی وجہ سے جنگلات آگ کی لپیٹ میں رہے، سب سے زیادہ درجہ حرارت 53 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا جہاں پرگرمی کی شدت سے اموات بھی ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ کاپ ۔27 سے یہ امیدیں پیدا ہوئی ہیں کہ قدرتی آفات سے زیادہ متاثرہ علاقوں کو محفوظ بنایا جا سکے گا اور یہاں کے رہنے والے لوگوں کی روزی روٹی اور مستقبل انہیں واپس ملے گا، انہیں زندہ رہنے کیلئے روزگار، سانس لینے اور شہروں میں کام کرنے کا بنیادی حق ملے گا۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ہم اس فورم پر اس امید کے ساتھ آئے ہیں کہ ارادوں سے عمل، عزائم سے تکمیل اور زمینی ترسیل کی طرف تیزی سے گامزن ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت حکومت کو اب بھی سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی آباد کاری، انہیں خوراک کی فراہمی اور ان کیلئے لباس کی فراہمی کا چیلنج درپیش ہے، پاکستان نے اپنے وسائل طوفانی بارشوں اور سیلاب سے متاثرہونے والے تین کروڑ 30 لاکھ افراد کی طرف موڑ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے کاپ۔ 27 فورم میں اس اجتماعی ذمہ داری کے زیادہ سے زیادہ حصہ کیلئے آواز اٹھائی ہے۔ شیری رحمان نے کہا کہ اس سال مون سون کی شدت قدرے زیادہ رہی جس کی وجہ سے سیلاب آئے، پاکستان کے گلیشیئرز تین گنا زیادہ تیز رفتاری سے پگھل رہے ہیں، ملک کے شمال میں برفانی جھیلوں سے آنے والے سیلاب سے اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کی مدد سے ارلی وارننگ سسٹم کی وجہ سے انسانی جانیں بچانے میں کامیاب ہوئے۔

انہوں نے ایک عالمی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی اثرات اس وقت بڑی ہنگامی صورتحال کے طور پر سامنے آئے ہیں، عالمی بینک کے مطابق پاکستان کو سیلاب سے تقریباً 30 ارب ڈالرسے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے اقدامات نہ اٹھائے تو درجہ حرارت کی شدت میں اضافہ قابو سے باہر ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک کے تخمینہ کے مطابق پاکستان کو 2050ء تک 348 ارب ڈالر کی آب وہوا کو معمول پر لانے کیلئے کلائیمٹ فنانسنگ کی ضرورت ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ جب ایک ماحولیاتی نظام دفن ہونا شروع ہوتا ہے تو یہ فطرت کا قانون ہے کہ وہ دوسروں تک پھیل جاتا ہے اور اس وقت جو کچھ موسمیاتی تبدیلی کے حوالہ سے پاکستان میں ہو رہا ہے وہ پاکستان میں ہی نہیں رہے گا۔