ملتان۔ 20 فروری (اے پی پی):چیئرمین جنوبی پنجاب پاکستان بزنس فورم ملک سہیل طلعت نے ’’اے پی پی‘‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی کپاس کی معیشت ایک نازک دوراہے پر کھڑی ہے، ایک وقت تھا جب یہ شعبہ ٹیکسٹائل برآمدات میں نمایاں حیثیت رکھتا تھا، اگر کپاس پر مبنی ٹیکسٹائل صنعت کو بقاء اور ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ہے تو اسے ایک اعلیٰ معیار پر مبنی تبدیلی کو اپنانا ہوگا، جس میں توجہ قیمتی، نامیاتی اور پائیدار طریقے سے حاصل کی گئی کپاس پر مرکوز ہو۔ عشروں تک پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت نے بڑی مقدار میں عام مصنوعات تیار کر کے اپنی جگہ بنائی،
جہاں قیمت ہی واحد فرق کرنے والا عنصر تھا، مسابقتی منظرنامہ تبدیل ہو رہا ہے، پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات ایک نہ ختم ہونے والی قیمتوں کی جنگ میں پھنس چکی ہیں۔ چین، بنگلہ دیش، ویتنام اور حتیٰ کہ وسطی امریکی ممالک جیسے حریف سستے پیداواری اخراجات، تیز تر ترسیلات اور بہتر بنیادی ڈھانچے کی پیشکش کرتے ہیں، اس کے برعکس پاکستان کو زیادہ توانائی کے نرخوں، غیر مؤثر لاجسٹکس اور سکیورٹی خدشات جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی ٹیکسٹائل صنعت تیزی سے مصنوعی اور مین میڈ فائبرز (ایم ایم ایفز) کی طرف جا رہی ہے، جو زیادہ سستی، زیادہ لچکدار اور جدید صارفین کی ضروریات کے لیے زیادہ موزوں ہیں، مین میڈ فائبرز کھیلوں کے لباس، تیراکی کے لباس، گاڑیوں کے فرنیچر، صنعتی کپڑوں، تکنیکی ٹیکسٹائل جیسے ایئر بیگز اور فلٹریشن سسٹمز اور یہاں تک کہ طبی اور حفظان صحت کی مصنوعات میں غالب حیثیت رکھتے ہیں۔
اس کے برعکس، کپاس تاریخی طور پر صرف سوٹنگ اور بستروں کی چادروں تک محدود رہی ہے۔ مین میڈ فائبرز کو مختلف مقاصد کے لیے انجینئر کیا جا سکتا ہے، جس کی وجہ سے یہ بڑے پیمانے پر مینوفیکچررز کی پہلی پسند بن گئے ہیں۔ملک سہیل طلعت نے کہا کہ اب کپاس عالمی ٹیکسٹائل تجارت کا بنیادی عنصر نہیں رہی، بلکہ یہ ایک محدود استعمال کی شے بن چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس تبدیلی میں منفرد طور پر نقصان میں ہے،پاکستان کی صنعت اب بھی بڑی حد تک کپاس پر انحصار کرتی ہے، باوجود اس کے کہ کپاس کی عالمی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہےحتیٰ کہ کپاس کے شعبے میں بھی پاکستان کی مسابقت کمزور پڑ رہی ہے،ملک کی کپاس کم درجے کی، آلودہ اور معیار میں خراب ہے،کاشتکاروں کو بڑھتے ہوئے پیداواری اخراجات، پرانی بیج کی اقسام اور ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے مسائل کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے پیداوار میں کمی آ رہی ہے۔
صنعت اب بڑھتی ہوئی مقدار میں برازیل اور چین سے درآمد شدہ کپاس پر انحصار کر رہی ہے، جو پاکستان کی مسابقت کو مزید کمزور کر رہا ہے۔سہیل طلعت نے مزید کہا کہ عالمی ٹیکسٹائل کا مستقبل واضح ہے کہ زیادہ مقدار میں پیداوار مصنوعی اورمین میڈ فائبرز (ایم ایم ایفز) کے زیر تسلط ہوگی جبکہ کپاس ایک محدود لیکن قیمتی شعبے تک محدود ہو جائے گی۔
”نامیاتی“، ”پائیدار ذرائع سے حاصل شدہ“ اور ”کھیت سے فیکٹری تک مکمل ٹریس ایبلٹی“ جیسے لیبل کپاس کی مارکیٹ کی پہچان ہوں گے۔ برانڈز اور خوردہ فروش تصدیق شدہ پائیداری کے لیے زیادہ قیمت ادا کریں گے،بڑے پیمانے پر سستی کپاس کی ٹیکسٹائل کا دور ختم ہو چکا ہے،پاکستان کو خود کو اس تبدیلی سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=564080