صدر مملکت نے جرمنی کی جانب سے عطیہ کردہ امدادی رقم کے عدم استعمال پر وزارت تعلیم کو ذمہ دار ٹھہرا دیا

صدر مملکت

اسلام آباد۔6جون (اے پی پی):صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جرمنی کی حکومت کی جانب سے94-1993 سے عطیہ کردہ ایک کروڑ 37 لاکھ روپے سے زائد کی امدادی رقم کے عدم استعمال پر وزارت تعلیم کو مجرمانہ ضیاع، نااہلی اور غیر ذمہ داری کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ انہوں نے کہا کہ سستی نصابی کتابوں کی طباعت کے لیے کاغذ کی خریداری کے لیے جو عطیہ 30 سال قبل دیا گیا تھا وہ آج تک استعمال میں نہیں آیا جب کہ حکومت اپنی فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر امداد اور قرضے مانگ رہی ہے۔

صدر نے وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کی وزارت کو ہدایت کی ہے کہ معاملے کی انکوائری کی جائے اور ذمہ دار افراد کا تعین کر کے ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ صدر مملکت نے وزارت تعلیم کو متنبہ کیا کہ ریٹائرڈ اور انتقال کر جانے والے افراد پر ذمہ داری نہ ڈالی جائے اور اس کی تعمیلی رپورٹ 45 دنوں کے اندر وفاقی ٹیکس محتسب کو جمع کرائی جائے۔

صدر نے یہ ہدایات وفاقی ٹیکس محتسب کے فیصلے کے خلاف سنٹرل ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل سیونگ (سی ڈی این ایس) کی طرف سے ترجیحی اپیل پر سنائے گئے اپنے فیصلے میں صادر کیں۔ ایوان صدر کے میڈیا ونگ کے مطابق صدر مملکت نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ مذکورہ رقم 6 سال تک نان پرافٹ اکاؤنٹ میں پڑی رہی اور کسی نے اس کی پرواہ نہیں کی، اگر یہ کسی افسر کی ذاتی رقم ہوتی تو وہ ایک دن بھی ضائع نہ ہونے دیتے اور منافع کی اسکیم میں جمع کرواتے۔

صدر نے نشاندہی کی کہ رقم کو بیکار رکھنے کی وجہ سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ 17,490,730 روپے ہے جو کہ 13.707 ملین روپے کی اصل رقم سے بھی زیادہ ہے۔ مزید یہ کہ اگر آڈٹ میں اس کی نشاندہی نہ کی جاتی تو یہ نقصان اس سے بھی زیادہ ہو سکتا تھا۔ صدر مملکت نے کہا کہ بھولی ہوئی رقم 23-07-1999 سے 23-07-2014 کو خصوصی بچت سرٹیفکیٹ میں جمع کرائی گئی۔ اس وقت کے دوران خصوصی بچت سرٹیفکیٹ کے لیے حکومتی پالیسی ہر تین سال کے دوران خودکار رول اوور کی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ 23-03-2014 کے بعد جب سرمایہ کاری کا خودکار رول اوور رک گیا تو وزارت تعلیم میں ایک بھی فرد ایسا نہیں تھا جسے اس رقم کی پرواہ ہوتی اور وزارت نے کسی منافع کے بغیر پوری رقم کو بے کار پڑے رہنے دیا۔ صدر مملکت نے وزارت تعلیم کے اصل رقم اور اس کے منافع کی رقم جو کہ 54,265,500 روپے تک بڑھ گئی کو استعمال نہ کرنے کے اقدام کو شرمناک قرار دیا ہے ۔

بعد ازاں جب 2020 میں، حکومت نے حکم دیا کہ مختلف بینکوں میں پڑے ہوئے تمام وزارتوں کے فنڈز قومی خزانے میں جمع کرائے جائیں تو آڈٹ میں جرمن گرانٹ کو غیر منافع بخش اکاؤنٹ میں رکھنے کی اس سنگین غفلت کا انکشاف ہوا۔ تاہم جب آڈٹ اعتراض کے جواب میں وزارت نے رقم نکلوائی تو زکوٰۃ اور ود ہولڈنگ ٹیکس کی کٹوتی کا معاملہ سامنے آیا۔

صدر نے بنیادی طور پر دو حوالوں سے وزارت تعلیم کی سرزنش اور مذمت کی۔ ایک تو یہ کہ مذکورہ وزارت نے کوئی پرواہ نہیں کی اور 30 ​​سال قبل سستی نصابی کتابوں کے کاغذ کے لیے دی گئی غیر ملکی گرانٹ کو یکسر فراموش کر دیا اور دوسرا اس مجرمانہ غفلت کی وجہ سے پاکستانی عوام 36,357,051 روپے کے منافع سے محروم ہو گئے جو اگر یہ پیسہ صحیح طریقے سے لگایا جاتا تو کمایا جا سکتا تھا۔

صدر نے کہا کہ وزارت تعلیم ود ہولڈنگ ٹیکس اور زکوٰۃ کی کٹوتی سے استثنیٰ کا دعویٰ کے لیے انکم ٹیکس اور زکوٰۃ سے چھوٹ کے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی جبکہ رائج پالیسی کے مطابق وزارت اس کی اہل تھی۔ نتیجتاً سی ڈی این ایس نے استثنیٰ کا سرٹیفکیٹ پیش نہ کرنے کی وجہ سے ودہولڈنگ ٹیکس اور زکوٰۃ دونوں کی کٹوتی کی جو کہ وزارت تعلیم کی حکومتی سرمایہ کاری کو دانشمندی اور مؤثر طریقے سے ہینڈل کرنے میں نااہلی کو ظاہر کرتی ہے۔

صدر نے نیک نیتی سے کام کرنے اور استثنیٰ کے سرٹیفکیٹس کی کمی کی وجہ سے ود ہولڈنگ ٹیکس اور زکوٰۃ دونوں کی کٹوتی پر سی ڈی این ایس کو بری کردیا۔ صدر مملکت نے وفاقی وزارت تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کو ہدایت کی کہ وہ سابقہ ​​اثر کے ساتھ مستثنیٰ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے ایف بی آر اور محکمہ زکوٰۃ سے رجوع کرے اور ایف بی آر اور محکمہ زکوٰۃ کو بھی ہدایت کی کہ وہ قواعد اور ضابطے کے مطابق ایک دفعہ کے لئے استثنیٰ سرٹیفکیٹ جاری کرنے پر غور کریں۔