متعدد علاقوں میں سیلاب کا پانی اب بھی کھڑا ہے ،بحالی و پناہ گاہوں کی فراہمی کے لئے فنڈز اور وسائل کی کمی ہے، سینیٹر شیری رحمن

سینیٹر شیری رحمان

اسلام آباد۔28ستمبر (اے پی پی):وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ متعدد علاقوں میں سیلاب کا پانی اب بھی کھڑا ہے جبکہ بحالی اور پناہ گاہوں کی فراہمی کے لئے فنڈز اور وسائل کی کمی ہے، عالمی اداروں کی جانب سے امداد کی یقین دہانیوں کے باوجود بحرانی کیفیت سنگین ہو چکی ہے، بین الاقوامی برادری سے مزید امداد کی ضرورت ہے۔

بدھ کو وزارت موسمیاتی تبدیلی سے جاری ایک بیان میں وفاقی وزیر نے کہا کہ حالیہ بارشوں نے ہماری منصوبہ بندی کو بری طرح متاثر کیا ہے اور سیلابی صورتحال نے سارا نظام درہم برہم کر دیا ہے ۔ وسائل کی کمی نے امدادی سرگرمیوں میں وسیع پیمانے پر خلل پیدا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آبادکاری اور بحالی کے کاموں کے لیے مالیاتی وسائل بروئے کار لا رہے ہیں خاص طور پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے متاثرہ خاندانوں کو پچس ہزار روپے کی پہلی قسط فراہم کی جاتی ہے جبکہ مزید مالی امداد کے لیے بین الاقوامی برادری سے مزید امداد کی ضرورت ہے، کیونکہ ہزاروں افراد اب بھی خیموں میں ہیں، جب کہ بہت سے لوگ اب بھی چھت کی تلاش میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو 33 ملین متاثرہ افراد کی خدمت کے لیے مزید بہت کچھ درکار ہوگا۔ سیلابی صورتحال کے باعث پاکستان کے معاشی نظام کو بہت بڑا جھٹکا لگا ہے۔ ہمیں قرضوں کے بوجھ سے فوری ریلیف کی ضرورت ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اس وقت، تمام موسمیاتی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے فنڈنگ ​​سست روی کا شکار ہے ۔ دوست ممالک کی طرف سے اس وقت جو امدادی رقوم پہنچ رہی ہیں وہ متاثرہ علاقوں کی بحالی کے طور پر کام کر رہی ہیں لیکن یقینی طور پر تعمیر نو یا ملک کے پائیدار مستقبل کے لیے مزید امداد درکار ہے۔

وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی سینٹر شیری رحمان نے کہا کہ اگرچہ پاکستان ایک فیصد سے بھی کم اخراج کرتا ہے جبکہ ماحولیاتی تبدیلی پاکستان کو بری طرح متاثر کر رہی ہے دوسری جانب امداد کی تقسیم کو بھی منصفانہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے سیلاب کے نقصانات کی وجہ سے غذائی عدم تحفظ کے حوالے سے کہا کہ پاکستان کو غذائی عدم تحفظ کے خطرے کا سامنا ہے کیونکہ سیلاب نے زرعی اراضی کا بڑا حصہ غرق ہو گیا ہے، اور خوراک کی دستیابی اولین ترجیح ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہنگر ہاٹ اسپاٹ رپورٹ 2022 سے پتہ چلتا ہے کہ سیلاب کے اثرات ملک کی صورت حال کو تیزی سے بگاڑ کو مزید پیچیدہ کر دیں گے، جس سے 3 صوبوں سندھ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی 4.7 ملین آبادی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو سکتی ہے۔ ہم نے نہ صرف وہ فصلیں کھو دی ہیں بلکہ اس بارے میں بھی شدید خدشات ہیں کہ آئندہ ربیع کے سیزن کے لیے مسائل بھی درپیش ہو نگے۔

نقصان کے ابتدائی تخمینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف سندھ میں قابل کاشت زمین کا 74% نقصان ہوا ہے جبکہ کل 3,410,743 ایکڑ رقبہ تباہ ہوا۔ سیلاب کی وجہ سے 100 فیصد کپاس، 88 فیصد سبزیاں اور 66 فیصد چاول ضائع ہو چکا ہے۔ قومی سطح پر، 40 لاکھ ایکڑ سے زیادہ زرعی اراضی سیلاب کی وجہ سے ضائع ہوئی ہے جس سے 481 ملین روپے سے زیادہ کا مالی نقصان ہوا ہے۔