وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف کیس کی سماعت کے لئے فل کورٹ تشکیل د یا جائے،حکمران اتحاد کے رہنمائوں کا مطالبہ

اسلام آباد۔25جولائی (اے پی پی):حکمران اتحاد کے رہنمائوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف درخواست کی سماعت کے لئے فل کورٹ تشکیل دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ، آئین، پارلیمان اور اس کے فیصلوں کا احترام ہونا چاہیے،قومی یکجہتی کی سوچ سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ اداروں کی بھی ہونی چاہیے، اسی صورت میں ملک مشکل صورتحال سے نکل سکتا ہے، ، پاکستان پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں،کسی قسم کی نرم مداخلت جمہوری اصولوں کے تحت درست نہیں ہو گی، اتحادی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔

ان خیالات کا اظہار حکمران اتحاد سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے پیر کو یہاں وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ جنگ عظیم دوم کے وقت یہ سوال کیا گیا کہ اگر ہماری عدالتیں انصاف دے رہی ہیں تو کوئی ہمیں شکست نہیں دے سکتا، اسی طرح خلیفہ راشد کا قول ہے کہ دنیا میں کفر کا نظام چل سکتا ہے ظلم کا نہیں، مریم نواز نے کہا کہ میرے بعض ہمدردوں نے مجھے مشورہ دیا کہ پاناما کیس کی اپیل ہائی کورٹ میں حتمی مراحل میں ہے اس لئے پریس کانفرنس نہ کریں، اس کا اس سماعت پراثر پڑسکتا ہے تاہم میں انہیں جواب دیا کہ ہمیں قوم کا سوچنا پڑتا ہے،

قوم کے سامنے کچھ حقائق رکھناچاہتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی عدالتی فیصلہ غلط ہو سکتا ہے لیکن غلط فیصلوں کا تسلسل غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2016 سے عدالتی فیصلوں سے رونگٹے کھڑے کرنے والی ایک داستان سامنے آ تی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں کے فیصلے کبھی بانچھ نہیں ہوتے، ان کے اثرات دہائیوں تک رہتے ہیں۔ آنے والے وقت میں اس کے اثرات مزید گہرے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کسی بھی ادارے کی توہین کبھی بھی ادارے سے باہرسے نہیں ہوتی، ادارے کے اندر سے ہوتی ہے، متنازعہ فیصلوں سے عدلیہ کی توہین ہوتی ہے، انصاف پر مبنی فیصلے پر جتنی بھی تنقید کی جائے وہ کوئی معنی نہیں رکھتی۔

پنجاب میں وزیراعلیٰ کاانتخاب ہوا جس پر تحریک انصاف دیواریں پھلانگ کر سپریم کورٹ رجسٹری برانچ گئی جبکہ پٹیشن ابھی تیار ہو رہی تھی اور اس کا انتظار کیا گیا۔ یہ اس ملک میں انصاف کی حقیقت ہے۔ سینیٹ کے انتخابات میں6 ووٹ مسترد کئے گئے تو اس وقت عدالتی موقف تھا کہ چیئرکی رولنگ چیلنج نہیں ہو سکتی تاہم پنجاب میں مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی مرضی کے خلاف جنہوں نے ووٹ دیئے ان کے ووٹ عدالتی فیصلہ کے تحت مسترد کئے جانے پر ڈپٹی سپیکر پنجاب کو طلب کیا گیا۔ قومی اسمبلی میں ڈپٹی سپکر قاسم سوری کو عدالت میں طلب کیوں نہیں کیا گیا؟ مریم نواز نے کہا کہ جعلی ووٹ ثابت ہونے کے باوجود وہ اڑھائی سال سے سپریم کورٹ سے حکم امتناعی پر ہیں۔

آئین شکنی پر صدر اورڈپٹی سپیکر کو کسی عدالت نے نہیں بلایا ۔انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے 25 ارکان کو پارٹی سربراہ کی منشا کے خلاف ووٹ ڈالنے پر نااہل قرار دیاگیااور یہ فیصلہ دیاگیا کہ ان کے ووٹ شمار نہیں ہوں گے ۔ 95 فیصد قانون دانوں نے کہاکہ یہ فیصلہ آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے۔ یہ 25 ارکان تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دیئے گئے اور اب مسلم لیگ ق کے 10 ارکان کو بھی اسی فیصلہ کے برعکس تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے ارکان کم اور پی ٹی آئی کے ارکان کو زیادہ کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ مریم نواز نے کہا کہ پارٹی کے سربراہ کو دیکھ کر اپنے ہی کئے ہوئے فیصلے بدل دیئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی سربراہ اگر نوازشریف ہو تو اس کے خلاف فیصلہ اقامہ پر کیاجاتا ہے اور ساتھ کہا جاتا ہے کہ پارٹی سربراہی سے ہٹادیاجاتا ہے کہ پارٹی سربراہ سب کچھ ہوتا ہے ۔

چوہدری شجاعت جو کہ مسلم لیگ(ق) کے صدر ہیں ان کے احکامات پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ عمران خان کے حوالے سے آئین کی تشریح بدل دی جاتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ اگر انصاف کاترازو ٹھیک کرلیاجائے تو پاکستان ٹھیک ہو گا۔نہ جانے عدالتیں ٹرسٹی وزیراعلیٰ، بلیک لا ڈکشنری کے الفاظ کہاں سے اخذکرتی ہیں؟ حمزہ شہبازکو وزیراعلیٰ بننے کے بعد کام نہیں کرنے دیا گیا۔ شہباز شریف جب سے وزیراعظم بنے، اکثر عدالتوں میں دیکھے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ کی گئی ناانصافیوں کی طویل فہرست ہے۔ مریم نوازنے کہا کہ اپریل 2022 میں جب ہمیں حکومت ملی اور آج جولائی 2022 میں موازنہ نہیں کیا جا سکتا، معیشت کی صورتحال کا موازنہ 2017 سے ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے قوم کا اربوں روپیہ ملک ریاض کو دیا۔2017 کے بعد ملک کی ایسی حالت ہوئی کہ آج تک سنبھل نہیں سکا۔ اس وقت تمام اشاریے مثبت تھے، اقامہ جیسے مذاق پرنواز شریف کو نکالا گیا تب سے ملک ہچکولے کھا رہا ہے اورابھی تک سنبھلنے میں نہیں آرہا ، اس وقت وٹس ایپ پر جے آئی ٹی بنائی گئی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بارمانیٹرنگ جج لگایا گیا۔انہوں نے سوال کیا کہ مسلم لیگ (ن) کے خلاف مقدمات میں مخصوص ججوں کو ہی کیوں بینچ میں بیٹھایا جاتا ہے؟ ہمیں گارڈ فادر اورسسلین مافیا جیسے القابات سے نوازا گیا۔ پوری دنیا میں ہمارے خلاف کھوجی دوڑائے گئے ، جب کوئی ثبوت نہ ملا تو آخر پر اقامہ پر نکالا گیا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ججز اور انصاف کا مذاق اڑایا، توہین عدالت میں ہمارے کئی لوگوں کو چن چن کر باہر کیا گیا، طلال چوہدری اور دانیال عزیز آج تک نااہل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے حکم پر لانگ مارچ کے دوران املاک کو آگ لگائی گئی، اس بارے میں کہا گیا کہ شاید آنسو گیس سے بچنے کے لئے آگ لگائی گئی ہو، عمران خان نے جعلی دستاویزات سے 300 کینال پر محیط بنی گالا کا محل ریگولرائز کروایا، عمران خان نے سول نافرمانی کی، پی ٹی وی پر حملے کروائے۔ عمران خان نے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کی عمارتوں کی بے توقیری کی، اگر غنڈہ گردی اور گالی دینا معیار ہے تو اس پر عمران خان پورا اترتے ہیں۔ عمران خان نے پورے اسلام آباد میں آگ لگا دی، کسی نے کچھ نہیں کہا، اگر کسی اور جماعت نے ہنگامہ کیا ہوتا تو اب تک اسے نشان عبرت بنا دیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ د ہرا معیار ختم ہو گا تو ملک ترقی کرے گا۔ سرینا عیسیٰ انصاف کے لئے ماری ماری پھرتی رہیں۔

عمران خان اقتدار سے اترنے کے بعد خود بول پڑے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس پرانہیں غلط گائیڈ کیاگیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ عمران خان جس شخص کے خلاف ہے وہ دیانتدار ہے ۔ وہ ایمپائرز کے ساتھ مل کر کھیلتا رہا۔ جب وہ ہٹے تو دھڑام سے منہ کے بل گرا ، اس کے حمایتی اب بھی اس کی مدد کررہے ہیں۔ ان کی تمام تفصیلات دی جاسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قابل اعتراض بات کی وڈیو ثبوت موجود ہونے کے باوجود شیریں مزاری کے لئے عدالت رات کو کھولی گئی جبکہ مریم نواز کو پانچ پانچ ، چھ چھ ماہ ضمانت نہیں دی گئی۔ جج چھٹی پربھیج دیئے گئے۔ آصف زرداری کی ہمشیرہ کو گھر سے اٹھا کر لایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کیا یہاں طیبہ گل کو انصاف ملا ہے؟ یہ حقائق آپ کے سامنے ہیں۔ مریم بغیر جرم کے جیل میں جبکہ علیمہ باجی جرمانہ دے کر گھر چلی گئیں ۔

جرمانہ جرم پر ہی دیاجاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کہا کہ انہیں جان کا خطرہ ہے تو ان کی عدالت سے عدم پیشی کی درخواست فوری منظور کرلی گئی ۔ انہوں نے کہاکہ میں عمرہ اور اپنے والد سے ملاقات کے لئے پاسپورٹ مانگتی ہوں تو ایک دن میں کئی بینچ بنتے اور ٹوٹتے ہیں اور مجھے پاسپورٹ نہیں دیاجاتا جبکہ شہزاد اکبر، فرح گوگی کا نام نہ توای سی ایل میںڈالاجاتاہے اور نہ ہیں ملک سے فرار ہونے سے روکا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے اپنے اراکین کو ترقیاتی فنڈز دینے کا معاملہ کورٹ میں لے جاتا ہے تو عدالت کہتی ہے کہ ہم اس میں مداخلت نہیں کرسکتے ۔

چوہدری پرویز الہٰی کا کیس بند اور بی آر ٹی پرتحقیقات بندکرادی گئیں۔ ایف آئی اے نے تحقیقات شروع کیں تو بند کردی گئیں۔ نیب نے انکوائری شروع کی تو کورٹ نے اس پرپابندی لگا دی۔ مالم جبہ کیس پرپشاور ہائی کورٹ نے انکوائری کا کہا لیکن نیب نے انکوائری بند کردی۔ اس پرتو کوئی سوموٹو نہیں لیاگیا۔ انہوں نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس کے تحت پی ٹی آئی نے جعلی اکائونٹس پر اسرائیل اور بھارت سے ممنوعہ فنڈنگ لی ۔ 7 سال سے قوم اس کے فیصلے کی منتظر ہے، اگرہمارے اوپر الزام ہوتا تو کیا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک کی معاشی حالت، دوبارہ لوڈ شیڈنگ، دنیاکی ناراضگی ، پی ٹی آئی کی چار سالہ کارستانی اور بعض متنازعہ فیصلوں کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے کہاکہ 25 مئی کو سپریم کورٹ کے احکامات کی دھجیاں اڑائی گئیں جس پر کورٹ کی طرف سے یہ کہا گیا کہ ہو سکتا ہے کہ عمران خان تک ہمارے احکامات پہنچے ہی نہ ہوں۔

عمران خان کی ساری زندگی کی کارکردگی غنڈہ گردی ہے ۔ اس نے اسلام آباد میں بھی آگ لگا دی ۔ اگر یہ کام اتحادی یا نواز شریف نے کیا ہوتا تو آفت آ جاتی ، ایسے شخص کو عدالت نے صادق اور امین قرار دیا۔ عمران خان نے فرح گوگی کے ذریعے پانچ پانچ کیرٹ کی انگوٹھیوں کے عوض فائلوں پردستخط کئے۔ اس کے صادق اور امین ہونے کے قصے دنیا میں مشہور ہو رہے ہیں۔مریم نواز نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ فیصلے عمران خان کی بدتمیزی اور دباو پر نہیں ہوں گے، ہمیں لڑائی لڑنا آتی ہے ،عمران خان کی کوئی قربانی نہیں ،اسے کبھی کانٹا بھی نہیں چبھا جبکہ نواز شریف اور یہاں بیٹھے قائدین نے ایسی قربانیاں دیں ہیں جن کا ازالہ ممکن نہیں، کسی کو پلیٹ میں رکھ کر حکومت نہیں لینے دیں گے ، اگر دباو ڈال کر فیصلے کرائے گئے تو کوئی حکومت نہیں چل سکے گی ۔ انہوں نے کہا کہ 20 میں سے 15 سیٹیں جیتنے والا دھاندلی کا الزام لگا رہا ہے ، نہ کسی نے انتخابی عملے کو اٹھایا نہ دھند چھائی اور نہ ہی بیلٹ باکس بدلے گئے ۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف فارن فنڈنگ کیس میں ثبوت موجود ہیں ،انھیں معلوم ہے کہ فیصلہ ان کے خلاف آئے گا اس لئے چیف الیکشن کمشنر کو نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ ان کی تعیناتی بھی انہوں نے خود ہی کی ہے ،اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو عمران خان کا ساتھ دے وہ اچھا ہے اور جو ساتھ نہ دے اسے میر صادق ، میر جعفر اور جانور قرار دے دیتے ہیں ، دھونس ،دھمکیوں اور بدتمیزی سے کسی کو فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہونے دیں گے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم حکومت میں ہیں لیکن ہم کوئی کام یا کارکردگی اسی وقت دکھا سکتے ہیں جب ہم عدالتوں سے نکل کر کام کریں گے، حمزہ شہباز جب سے وزیراعلی بنے ہیں انھیں ایک دن بھی سکون سے کام نہیں کرنے دیا گیا ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی جان کو خطرہ تھا ، نیب نے ان کو خدا جانے کیا کیا ہے ، ایک دن یہ باتیں سامنے آئیں گی ، نواز شریف ملک میں واپس آئیں گے ، ان کی واپسی قریب ہے لیکن انھیں جیل نہیں جانے دیں گے ، ایک شخص راہداری ضمانتیں کر اکے دندناتا پھر رہا ہے جبکہ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں نواز شریف ملک سے باہر بیٹھنے پر مجبور ہے ۔

پی ڈی ایم اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وہ مریم نواز کی تمام باتوں کی تائید کرتے ہیں ، ہم نے عدالت کو تحفظ دینے کے لئے آخری حد تک جانا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں ، ہماری اس ملک سے وفاداری ہے ، بڑے سے بڑے ہاتھ اور ادارے سے بڑھ کر ہم وفادار ہیں ، پارلیمنٹ کو طاقتور بنانے کے لئے ہم نے آگے بڑھنا ہے ، خوداحتسابی ہوگی تو ادارے بھی قائم اور مستقبل بھی بہتر ہوگا، استحکام آئے گا تو سب ٹھیک ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ ساڑھے تین سال سے ملک کا بیڑا غرق کیا گیا ،اب مزید نہیں کرنے دیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ اتحادی حکومت مشکل حالات سے گزری ہے ، آج اتفاق رائے سے کھڑے ہیں کہ ملکی معیشت کو ٹھیک کرنا ہے، ہمیں موقع تو دیا جائے ، ہم اپنی تمام تر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں ، کبھی ایک طرف تو کبھی دوسری طرف مشکل پیدا کی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ ، حکومت اور اداروں کو سپورٹ ہوگی تو ملک میں استحکام آئے گا ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلی پنجاب کیس میں فل کورٹ ہمارا مطالبہ ہے ۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان پر کوئی کمپرومائز کرنے کے لئے تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے سیاسی جماعتوں کے قائدین کے داخلے پر پابندی کے فیصلے کی خبر موصول ہوئی ہے ۔

۔مولانا فضل الرحمان نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ آئین، پارلیمان اور اس کے فیصلوں کا احترام ہونا چاہیے، اگر ہم حکومت نہ لیتے تو پاکستان کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاچکا ہوتا ، یہ ایجنڈے کا حصہ ہوتا ہے جو کسی وقت عملی طور پر سامنے آجاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کو کام نہ کرنے دیئے جائے ، ہر روز ایک نئے کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے تو کیسے کام ہوسکتا ہے ۔انہو ں نے کہا کہ حالات سری لنکا جیسے ہونے جارہے تھے لیکن اتحادی حکومت نے اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ۔ انہوں نے کہا کہ مشکلات ضرور ہیں، ان کا تعلق ماضی کے ساڑھے تین سال کے ساتھ ہیں ،

عدم اعتماد کے فیصلے کے نتیجے میں تبدیلی آگئی، اس کے بعد تذبذب نہیں ہونا چاہیے، اب فیصلہ ہو چکا کہ اتحادی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم نے پارلیمنٹ کو طاقتور بنانے کے لئے طویل جدوجہد کی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ملک آئینی طریقے سے چلے، عمران خان کے دبائو میں آ کر آئین کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا، ہمارا موقف ہے سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ اور سپریم کورٹ کے تمام ججز ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے فیصلہ کے اہم کیس کو سنیں، ان کا جو بھی فیصلہ ہوگا، وہ آئین اور قانون کے مطابق ہوگا، ہم سب اس فیصلے کو تسلیم کریں گے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس کیس پر ہمیں فل کورٹ بینچ چاہئے، تمام جمہوری جماعتوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ فل کورٹ بینچ بنایا جائے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ جب سارے ججز کیس سنیں گے تو کسی کو فیصلہ پر اعتراض نہیں ہوگا۔ کچھ لوگوں سے برداشت نہیں ہورہا کہ پاکستان جمہوری طریقے سے آگے بڑھے ، پاکستان کے عوام کو پیغام پہنچانے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں۔ پاکستان پیلپز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ مریم نواز شریف کو جیل میں ڈالا گیا، فریال تالپور کو اسلام آباد میں ہسپتال کے بیڈ سے عید کی رات گھسیٹ کر جیل میں ڈالا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام کوتین سال تک قربانی دینا پڑی، ہمارے کارکنان پر تشدد کیا گیا، چار سال ظلم کے باوجود ہم نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم نے پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کے لئے طویل جدوجہد کی، ہم چاہتے ہیں ملک آئینی طریقے سے چلے، کچھ لوگوں سے برداشت نہیں ہو رہا کہ پاکستان جمہوری طریقے سے آگے بڑھے، کچھ قوتیں جمہوریت کی طرف بڑھتا پاکستان برداشت نہیں کر پا رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے خلاف کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، ہم چاہتے ہیں کہ ادارے غیر متنازع رہیں اور آئینی طریقے سے کام کریں۔ ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عمران خان کی یہ کو شش رہی ہے کہ ادارے غیر متنازعہ نہ رہنے دیئے جائیں بلکہ وہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوں جبکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں ، لگتا ہے ایک بار پھر اداروں کو غیر جمہوری ، غیر آئینی اور متنازعہ فیصلوں کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے

،اگر من پسند فیصلے کئے جائیں گے ، مرضی کے بینچ بنیں گے تو تاثر ملے گا کہ ادارے غیر جانبدار نہیں ہیں او رکسی کے سہولت کار بن کر کام کررہے ہیں ۔
مسلم لیگ (ق) کے سیکرٹری جنرل اور وفاقی وزیر چوہدری طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ یہ مطالبہ جائز ہے کہ ہمیں فل کورٹ چاہئے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے، ہمیں اس سے بھی کوئی پریشانی نہیں ہے کہ موجودہ بینچ کے رکن تین ججز بھی اس فل کورٹ کا حصہ ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ فل کورٹ ایک ہی بار یہ فیصلہ کر دے تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ اس ملک کو کون سا نظام چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اتنی ساری جماعتیں فل کورٹ بنانے کا اگر مطالبہ کر رہی ہیں تو فل کورٹ بنایا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ سپریم کورٹ اس مطالبے کو تسلیم کرے گی اور سپریم کورٹ کا فل کورٹ بنایا جائے گا تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما خالد مگسی نے کہا کہ 70 سال کے تجربات اور حالات سب کے سامنے ہیں ، پہلے قبائلی علاقوں کے حالات ٹھیک نہیں تھے اب پورے ملک میں ایسے ہی حالات دکھائی دیتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اگرحمزہ شہباز کے معاملے میں فل کورٹ بن جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، ہم سب کا یہ ہی مطالبہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی معاملے میں بات کرنی ہو تو گرینڈ جرگہ کر لیا جائے ، اعلی عدلیہ ، اسٹیلشمنٹ اور سیاستدان بیٹھ کر ملک کو ایک رخ پر گامزن کرنے کے لئے بات چیت کریں ۔

عوامی نیشنل پارٹی کے راہنما ایمل ولی خان نے کہا کہ آج ہم سب یکجہتی کے ساتھ ایک موقف رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ 1973 کے آئین نے پورے ملک کو یکجا رکھا ہوا ہے، ایک تاثر سے محسوس ہوتا ہے کہ اب پارٹی لیڈر کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، ہمیشہ سے پارٹی کے تمام بڑے فیصلے پارٹی صدر ہی کرتے آئے ہیں اور پارلیمانی لیڈر پارٹی صدر کو جوابدہ ہوتا ہے ، وہ بھی پارٹی کے صدر کی بات ماننے کا پابند ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت اور جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے ، ملک کو بچانے کے لئے معیشیت پر توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے ،تمام سٹیک ہولڈرز کو آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنا کام کرناچاہیے، اداروں کے مابین تضاد کا نقصان عوام اور جمہوری نظام کو نظام کو پہنچے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ملک سے وفاداری یہ ہے کہ ڈیتھ سیل میں بھی ہوں تو حق اور سچ پر کھڑے رہیں ۔

ایم این اے محسن داوڑ نے کہا کہ ماضی میں ملک میں مارشل لابھی لگتے رہے ، جمہوری عمل میں رکاوٹیں بھی آتیں رہیں ،سلیکٹڈ فیصلے نہیں ہونے چاہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ایم این اے علی وزیر کا کیس ہمارے سامنے ہے، کبھی جج چھٹی پر ہوتے ہیں تو کبھی وکیل دستیبا ب نہیں ہوتے، باقی عدالتوں میں زیر التوا کیسز کی تعداد بھی سب کے سامنے ہے ،اس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 1973 کے آئین کے تحت اگر ادارے کام نہیں کریں گے تو معاملات کیسے درست سمت پر چل سکتے ہیں ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل ) کے ر ہنما آغا حسن بلوچ نے خیال ظاہر کیا کہ عدالت میں داخلے پر پابندی سیاستدانوں کو ان کے حق سے محروم کرنے اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج آئین ، قوانین او ر انسانی حقوق کے اصولوں کی پاسداری کی سخت ضرورت ہے، پارلیمنٹ کا کام قانون بنانا ہے عدلیہ کا کام غیر جانبدار ہو کر لوگوں کو انصاف فراہم کرنا ہے، اسٹبیلشمنلٹ کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے، تمام ادارے اپنی حدود میں رہے تو معاملات بہتری کی طرف جائیں گے ۔

ایم کیو ایم کے رہنما اسامہ قادری نے کہا کہ اگر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ فل کورٹ بننا چاہیے ، جہاں تین رکنی بینچ بنایا گیا وہاں فل بنچ بن جائے تو اس میں کیا حرج ہے ، فل بنچ ہی تمام معاملات کا حل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم سمجھتی ہے کہ نا انصافی پر مبنی معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا نہ ہی عوام کو صحیح سمت پر گامز ن کر سکتا ہے ، عدلیہ کے فیصلے عوامی رائے اور امنگوں کے مطابق ہونے چائیں، ماضی قریب اور ماضی بعید کے فیصلے بھی سب کے سامنے ہیں ۔ایم این اے اسلم بھوتانی نے کہا کہ اتحادی جماعتوں کے قائدین کے فل کورٹ مطالبے کی تائید کرتے ہیں ۔