پاکستان، افغانستان اور کشمیر کے عوام کے درمیان محبت، اخوت اور باہمی احترام کے وہ رشتے قائم ہیں جنہیں جغرافیائی حد بندیوں میں قید نہیں کیا جا سکتا ہے، صدر آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خان

سردار مسعود خان کا اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی طرف سے بھارتی حکومت کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں بچوں کے خلاف پیلٹ گن کے استعمال سے روکنے کے مطالبے کا خیر مقدم

اسلام آباد ۔ 8 اگست (اے پی پی) آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ پاکستان، افغانستان اور کشمیر کے عوام کے درمیان محبت، اخوت اور باہمی احترام کے وہ رشتے قائم ہیں جنہیں جغرافیائی حد بندیوں میں قید نہیں کیا جا سکتا ہے۔ افغانستان کے عوام گزشتہ چار دہائیوں سے ہولناک جنگ کی بھٹی میں جھلس رہے ہیں اور کشمیریوں کا دکھ درد اْن سے زیادہ بہتر کوئی اور نہیں محسوس کر سکتا ہے۔ کابل میں پاکستان کے سفارتخانے کے زیر اہتمام ”مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی اقدامات اور آبادی کے تناسب میں تبدیلی” کے عنوان سے منعقدہ ایک ویبی نار سے خطاب کرتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ افغان عوام گزشتہ چالیس سال سے اپنی تاریخ کی بد ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ کیونکہ اْنہوں نے پہلے غیر ملکی قبضہ کے خاتمہ کے لیے ایک خونی جنگ لڑی ہے اور بعد میں خانہ جنگی کے تکلف دہ مرحلہ سے گزرے ہیں اس لیے وہ کشمیریوں کی غیر ملکی تسلط کے خاتمہ کی جدوجہد اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مصائب و مشکلات کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ ویبی نار سے افغانستان کے ہر دلعزیز رہنما اورسابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار، کابل میں پاکستان کے سفیر زاہد نصر اللہ نے بھی خطاب کیا جبکہ ویبی نار میں سفارتکاروں، اراکین پارلیمنٹ، صحافیو ں اور دانشوروں نے شرکت کی۔ صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان نے اپنے خطاب میں ویبی نار کے شرکا کو تنازعہ کشمیر کے پس منظر سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ کشمیر اور پاکستان کے عوام مذہبی، ثقافتی اور معاشی اعتبار سے اْس طرح پاکستان کے ساتھ وابستگی رکھتے ہیں جس طرح افغانستان اور پاکستان کے عوام کے درمیان روابط ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر یوں نے 1947 میں ہی اپنی قسمت پاکستان کے ساتھ وابستہ کرنے کا عہد کیا تھا اور اْس عہد کی تکمیل کے لیے وہ آج بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اْنہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کی آزادی کے بعد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام نے جنگ آزادی شروع کی اور کشمیر کا ایک حصہ اور گلگت بلتستان کے علاقوں کو ڈوگرہ راج سے آزادی دلائی اور اس جنگ میں پاکستان اور افغانستان کے قبائلیوں نے کشمیریوں کا ساتھ دیا تھا۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ ستر سال کا عرصہ گزرنے کے بعد کشمیر کے مقبوضہ حصے کے عوام اپنی سر زمین کو بھارت کی غلامی سے آزادی دلا کر پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے تھے اور آج بھی مقبوض? ریاست ”گو انڈیا گو بیک” کے نعروں سے گونج رہی ہے لیکن بھارت اپنے غیر قانونی قبضہ کو مستحکم کرنے کے لیے آزادی اور حق خود ارادیت کا مطالبہ کرنے والوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنا رہا ہے۔ اْنہوں نے کہا کہ 1947 سے لے کر اب تک پانچ لاکھ سے زیادہ کشمیریوں کو شہید کیا گیا۔ ہزاروں جیلوں کی تنگ و تاریک کمروں میں اپنی زندگی گزارنے کے بعد اپنے رب سے جا ملے ہیں۔ اْنہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک سال مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لیے تاریک ترین سال تھا کیونکہ بھارت کی نو لاکھ فوج نے ایک بار پھر کشمیر پر حملہ کر کے اس پر دوبارہ قبضہ کیا۔ ریاست کے دو حصوں میں تقسیم کر کے براہ راست دھلی کے ماتحت کر دیا اور نئے ڈومیسائل قوانین کے نام پر کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے بھارت کے ہندووں کو کشمیر میں آباد کرنے کے منصوبے کا آغاز کیا، بھارت کی جنونی حکومت کے ان غیر قانونی اقدامات کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو قتل کیا جار ہا ہے، آزادی کے حق میں اور غیر ملکی تسلط کے خلاف نعرے بلند کرنے والے نوجوانوں کو بصارت سے محروم، زخمی اور اپاہج بنانے کے علاوہ اْنہیں گرفتار کر کے جیلوں اور عقوبت خانوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ وہ آزادی کی جدوجہد ترک کر دیں۔ یہی نہیں بلکہ بھارت کی بی جے پی اور آر ایس ایس کی جنونی حکومت پاکستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر حملہ کر کے قبضہ کرنے اور دہلی سے کابل تک ہندووں راج قائم کر کے اکھنڈ بھارت کا خواب پورا کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ اْنہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاشی تعاون خطہ کی اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے لیے نا گزیر ہے اور ہماری خواہش ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کو افغانستان تک توسیع دی جائے تاکہ جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار افغان عوام بھی اس عظیم منصوبے کے معاشی فوائد سے استفادہ کر سکیں۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے افغانستان کی جنگ آزادی کے ہیرو اور سابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار نے افغانستان کے عوام کی طرف سے کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی جدوجہد کی واضع اور دو ٹوک الفاظ میں حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو افغانستان کے عوام کی جدوجہد سے سبق سیکھنا چاہیے اور یہ جان لینا چاہیے کہ طاقت کے استعمال سے کسی تحریک کو دبایا جا سکتا ہے اور نہ ہی عوام کے دلوں سے آزادی کی تمنا کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ گلبدین حکمت یار نے کشمیر کو مسلم اْمہ کے جسم میں ایک گہرا زخم قرار دیتے ہوئے اس اْمید کا اظہار کیا کہ کشمیری عوام ایک دن ضرور اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے۔