پاکستان تباہ کن سیلاب کی صورت میں ایک قیامت خیزبحران کاسامناکررہاہے، وزیرخارجہ بلاول بھٹوزرداری کی واشنگٹن ڈی سی کے ولسن سینٹرمیں گفتگو

اسلام آباد۔27ستمبر (اے پی پی):وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان تباہ کن سیلاب کی صورت میں ایک قیامت خیز بحران کا سامنا کر رہا ہے، ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مناسب طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں، عالمی نوعیت کے مسائل صرف عالمی اقدامات کے ذریعے ہی حل کیے جا سکتے ہیں، پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے ، بھارت میں ہندوتوا سے متاثر مسلم مخالف انتہا پسندی کی لہر پوری عالمی برادری کے لیے گہری تشویش کا باعث ہونی چاہیے۔

منگل کو واشنگٹن ڈی سی کے ولسن سینٹر میں اپنی گفتگو کے دوران وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب اس بات کا ثبوت ہیں کہ گلوبل وارمنگ آج دنیا کو درپیش ایک وجودی خطرہ ہے۔ پاکستان عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 1 فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے لیکن ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک میں سے ایک ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان ماحولیاتی انصاف کا خواہاں ہے۔

ہم ایک مضبوط قوم ہیں اور بین الاقوامی برادری میں اپنے دوستوں کے تعاون سے موسمیاتی لحاظ سے لچکدار انفراسٹرکچر کا استعمال کرتے ہوئے اسے بہتر اور سرسبز بنائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ تباہ کن سیلاب نے پاکستان کو اس طرح کی اجتماعی کوششوں کا نمونہ بننے کے لیے ایک موزوں کیس بنا دیا۔ وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مناسب طریقے سے سامنا کرنے کے لیے کافی وسائل فراہم کیے جائیں، عالمی نوعیت کے مسائل صرف عالمی اقدامات کے ذریعے ہی حل کیے جا سکتے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہماری حکومت کی ترجیح اقتصادی اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانا اور پوری دنیا میں باہمی طور پر فائدہ مند تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ دونوں ممالک نے مساوات، باہمی احترام اور باہمی فائدے کے اصولوں پر وسیع بنیاد پر تعلقات کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کی جسے کسی دوسرے ملک یا تعلقات کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ کاروبار، تجارت اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو مضبوط بنانا اور موسمیاتی تبدیلی، توانائی، زراعت، آئی ٹی/ٹیکنالوجی اور تعلیم کے شعبوں میں تعاون کو وسعت دینا اولین ترجیح ہے۔

وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے پڑوس میں امن و استحکام نہ صرف پاکستان بلکہ وسیع خطہ کی معاشی خوشحالی اور سماجی شعبے کی ترقی کے لیے ایک لازمی شرط ہے۔ اس تناظر میں، وزیر خارجہ نے افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے حکومت پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش پر زور دیا۔

وزیر خارجہ نے شرکاء کی توجہ بھارت میں ہندوتوا سے متاثر مسلم مخالف انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر کی طرف مبذول کرائی جو امریکہ سمیت پوری عالمی برادری کے لیے گہری تشویش کا باعث ہونی چاہیے، انہوں نے غیر قانونی بھارتی مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر اپنی حکومت اور عوام کے تحفظات سے بھی آگاہ کیا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے لیکن بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مقصد کے لئے غیر قانونی بھارتی مقبوضہ جموں وکشمیر میں 5 اگست 2019 کے اپنے غیر قانونی اقدامات کو واپس لے اور کشمیریوں پر ظلم و جبر کو بند کرتے ہوئے سازگار ماحول پیدا کرے۔