پاکستان معاشی مشکلات کے باوجود چار دہائیوں سے 1.4 ملین سے زیادہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین اور آٹھ لاکھ 50 ہزار کارڈ ہولڈرافغان شہریوں کی میزبانی کر رہا ہے، دفاعی تجزیہ کار

پاکستان معاشی مشکلات کے باوجود چار دہائیوں سے 1.4 ملین سے زیادہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین اور آٹھ لاکھ 50 ہزار کارڈ ہولڈرافغان شہریوں کی میزبانی کر رہا ہے، دفاعی تجزیہ کار

اسلام آباد۔2جنوری (اے پی پی):پاکستان اپنے معاشی معاملات اور معاشی مشکلات کے باوجود گزشتہ چار دہائیوں سے 1.4 ملین سے زیادہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین اور آٹھ لاکھ 50 ہزار کارڈ ہولڈرز افغان شہریوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ حتیٰ کہ کووڈ – 19کی وبا کے دوران بھی تحفظ کے اعلیٰ ترین معیارات پر عمل پیرا رہا ہے۔پاکستان کی بے مثال مہمان نوازی کی وجہ سے ان افغان طلبا ء کا سرکاری پرائمری اسکولوں میں مفت داخلہ ہوتا ہے اور بینک اکاؤنٹس اور روزی روٹی کے بے شمار مواقع کے ساتھ ساتھ اسکالرشپ کے ذریعے اعلیٰ تعلیم تک افغان شہریوں کو رسائی حاصل ہے۔

پاکستان کے انسانی ہمدردی پر مبنی تمام تر اقدامات سے قطع نظر، افغان اور بھارتی میڈیا کے ساتھ ساتھ ناراض عناصر کسی بھی صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرتے رہتے ہیں۔حال ہی میں افغان میڈیا نے صوبہ سندھ میں کچھ افغان مہاجرین کی گرفتاری کے حوالے سے پاکستان کے بارے میں غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی۔پاکستان میں سرکاری ذرائع کے مطابق، سندھ کا سفر کرنے والے افغان شہریوں کو پاکستانی پولیس نے قانونی رہائشی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا تھا۔ایک دفاعی تجزیہ کار نے سوال کیا کہ دنیا کا بھلا کون سا ملک غیر قانونی اور غیر رجسٹرڈ مہاجرین کو برداشت کرے گا جو میزبان ملک میں کسی بھی قانونی دستاویزات کے بغیر سفر کرتے پھریں؟ کیا خود افغانستان یا بھارت یا کوئی اور ملک اس طرح کی بے ضابطگیوں کو قبول کرے گا؟تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا کو سندھ میں چند افغان مہاجرین کی حراست کا فائدہ اٹھا کر غلط فہمیاں پیدا کرنے والے افغان مہاجرین کے ساتھ بھارت کے سلوک کا خیال رکھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت میں رہنے والے 21000 افغانوں میں سے تقریباً 11000 پناہ گزینوں کے طور پر رجسٹرڈ ہیں لیکن انہیں سرکاری طور پر مہاجرین کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔گزشتہ 15 سالوں سے بھارت میں مقیم افغان باشندے سماجی و اقتصادی مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ ان کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ، تعلیم یا صحت کی سہولیات نہیں ہیں۔نئی دہلی اپنے فارنرز ایکٹ 1946 کے تحت بھارت میں افغان پناہ گزینوں / پناہ کے خواہشمند افراد کے ساتھ سرکاری سطح پر غیر قانونی تارکین وطن کے طور پر سلوک کرتا ہے، یہ ایک ایسا عمل ہے جو سماجی خدمات تک رسائی یا دوبارہ سے تحفظ سے متعلق پناہ گزینوں یا سیاسی پناہ کے خواہشمند افراد کے حقوق کو تسلیم نہیں کرتا۔

بھارت نے یہ جاننے کے باوجود کہ افغان طلبہ کے ویزے منسوخ کردیئے ہیں کہ ہزاروں افغان طلبہ اس کی یونیورسٹیوں پر انحصار کرتے ہیں۔بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بدترین قوانین بنائے جارہے ہیں جو بی جے پی کی مسلمانوں سے مذہبی نفرت کو بے نقاب کر رہے ہیں۔پاکستان لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے اور آئندہ بھی افغانستان کی ہر ممکن مدد کے لئے ہمیشہ صف اول میں شامل رہے گا۔