پشاور کا قصہ خوانی بازار: قافلے اور قصہ گوئی تو نہیں، قہوہ کی روایت باقی ہے

تحریر مرتضی کمال

خیبر پختونخوا کا صوبائی دارالحکومت پشاور تاریخ،تہذیب وتمدن،جغرافیہ اور ثقافت کے اعتبار سے خصوصی اہمیت  کاحامل شہر تصور کیا جاتا ہے۔ یہ شہر درہ خیبر کی مشرقی حد کے نزدیک واقع ہے اور برصغیر میں داخل ہونے والوں کے لیے ایک قدرتی پڑاو کی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ بادشاہ، فوجیں، حملہ آور اور تاجر سب پشاور ہی کے ذریعے برصغیر میں داخل ہوئے اور ان سب سے جڑا تاریخی قصہ خوانی بازار اپنی شناخت آپ ہے۔ قدیم و جدید روایات کا حسین امتزاج یہ بازار شہر کا ایک گنجان آباد اور بارونق علاقہ ہے۔

مقامی روایات کے مطابق تاجروں کےقافلے ،فوجی دستےاورسیاح بازار کی سراؤں میں قیام کرتے ،سستاتے ، قہوہ (مقامی سبزچائے)پیتے اور ایک دوسرے کو قصے کہانیاں سناتے۔ ماضی میں سڑک کنارے پیشہ ور داستان گو سامعین کو اپنے لہجے اور مخصوص انداز سے مبہوت اور سحر زدہ کر دیتے تھے اسی لئے اسے قصہ خوانی بازار کا نام دیا گیا ہے۔ انیسویں صدی کے وسط میں پشاور کے برطانوی کمشنر سر ایڈورڈ ہربرٹ نے قصہ خوانی بازار کو وسط ایشیائی پکاڈلی قرار دیا تھا۔

قصہ خوانی بازار کی منفرد حیثیت اور تاریخ اسے دیگر بازاروں سے ممتاز کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا بازار تھا جہاں پر وسطی ایشیا،افغانستان سمیت دنیا کے مختلف علاقوں سے تاجر اور سیاح آیا کرتے، یہاں موجود سرائے میں قیام کرتے ،قہوہ خانوں میں ایک دوسرے کو اپنے سفر اور اپنے علاقوں کے قصے، داستانیں سنایا کرتے تھےجن مسافروں نے رات نہیں رکنا ہوتا وہ انہیں قہوہ خانوں میں سستاتے اور تھوڑا آرام کرنے کے بعد اپنے اپنے سفر پر نکل پڑتے۔ ماضی میں ان قہوہ خانوں میں پیتل کے بڑے بڑے حماموں میں پانی رکھا جاتا اور مٹی کے بنے مخصوص روایتی پیالوں میں گاہکوں کو قہوہ پیش کیا جاتا تھا۔

قصہ خوانی بازار میں اب وہ آباد سرائے، تجارتی قافلے اور قصہ گوئی تو نہیں رہی لیکن قہوہ کی روایت بھی باقی ہے۔ بازار کی مرکزی سڑک کے دونوں اطراف اب کتابوں،کپڑے،کریانہ کی دوکانیں، ڈاکٹروں کےکلینکس، ہوٹلز، چائے و قہوہ خانوں کے ساتھ ساتھ نوادرات، پشاوری چپلوں، خشک پھلوں سے لدی دوکانیں بازار کی رونقیں دوبالا کر رہی ہیں۔ فضا میں شوروغل کے باعث کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی جبکہ جگہ جگہ کوئلوں پر گوشت بھوننے کے سبب پیدا ہونےوالا دھواں ماحول کوکثیف لیکن جابجا ترو تازہ پھلوں کے ڈھیروں اور تازہ پکتی روٹیوں کی بھینی بھینی خوشبو فضا کوکسی حد تک لطیف ضرور کر دیتی ہے۔دکانوں کے اوپری منزل پر لوگوں کی رہائش اور ان کے عقب میں محلے آباد ہیں جہاں اونچے نیچے مکانات پرپیچ گلیوں کے ذریعے آپس میں منسلک ہیں۔ یہ گلیاں بعض مقامات پراس قدر تنگیء داماں کی شکایت کرتی ہیں کہ بیک وقت دو افراد کا گزر محال ہوجاتا ہے۔ بازار کی بوسیدہ مگر پرشکوہ سرائیں اورقدیم عمارات آج بھی عظمت رفتہ کی یاد دلاتی ہیں۔

تاریخی قصہ خوانی بازار میں کم و بیش نو عشروں قبل قائم ہونے والا قہوہ خانہ آج بھی موجود ہے اور کئی قصے اور کہانیاں اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں ، گاہکوں کا رش دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس قدیم قہوہ خانے میں پیش کی جانے والی سبز چائے کا روایتی ذائقہ شاید اب بھی برقرار ہے،پشاور اور اردگرد کے علاقوں کے لوگوں کی بڑی تعداد اس قہوہ خانے میں آ کر ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے کی کوشش کرتی ہے۔ دادا اور پر دادا کے زمانے سے قائم اس قہوہ خانے کو اب پڑپوتے چلا رہے ہیں جہاں اب ماضی میں آنے والے تجارتی قافلے تو نہیں رکتے مگر قہوہ کی روایت ابھی بھی باقی ہے اور اس کی مانگ شاید پہلے سے بڑھ کر ہے۔


ایک قدیم قہوہ خانہ کے مالک فضل الرحمان نے ” اے پی پی ” سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انکا تعلق مہمند ایجنسی سے ہے اور اب وہ پشاور میں رہائش پذیر ہیں۔وہ اس ہوٹل میں 58 سال سے کام کر رہا ہیں، یہاں پہلے انکے والد تھے۔ انہوں نے کہا کہ پرانے وقتوں میں قصہ خوانی میں کوہاٹی دروازہ، سرگئی دروازہ، کابلی دروازہ، گنج دروازہ سمیت 12 دروازے تھے اور افغانستان سے آنے والے قافلوں کا یہاں پڑاو ہوتا تھا۔ ان کے بقول اسے قصہ خوانی بازار اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہاں لوگ ہوٹل میں رہائش پذیر ہوتے اور قصہ خوان یہاں قصے سناتے تھے اس طرح رات گذر جاتی اور پھر صبح اذان کے وقت دروازے کھلتے تو یہ لوگ یہاں سے لاہور اور امرتسر انڈیا روانہ ہو جاتے۔ دوسری جانب سے بھی یہی طریقہ کار تھا، قصہ خوانی میں پڑاﺅ کے بعد خیبر، اور خیبر سے لنڈی کوتل اور پھر جلال آباد افغانستان قافلہ روانہ ہو جاتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پشاور کا مشہورہ قہوہ بھی اسی لئے مشہور ہے کہ یہاں قصہ خوان بیٹھتے تھے اور رات گذارنے کے لئے قہوہ استعمال کیا جاتا تھا۔ اب بھی یہاں خیبر ایجنسی اور لنڈی کوتل وغیرہ سے لوگ آتے ہیں اور قہوہ استعمال ہوتا ہے۔ قہوہ کھانے کے بعد ہاضمہ کے لئے بھی بہترین ہے۔

شہر یا دیگر علاقوں سے کوئی قصہ خوانی بازار آتا ہے تو قدیم قہوہ خانے کا رخ ضرور کرتا ہے، یہاں دور دراز سے ہی نہیں مقامی لوگ بھی دوست احباب کے ساتھ باقاعدگی سے آتے ہیں۔ اس قدیم قہوہ خانے نے جہاں شہر کے بدلتے حالات دیکھے وہاں یہ آج بھی تاریخی بازار قصہ خوانی کی یادیں تازہ کر رہا ہے۔ قہوہ خانہ میں موجود ایک گاہک نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قصہ خوانی بازار کے قہوہ خانوں میں آنا اورقہوہ پینا ہماری دیرینہ روایت ہے ،بچپن میں اپنے بزرگوں کے ہمراہ یہاں آتے تھے ،اب بھی جب سوداسلف کیلئے آتے ہیں تو سستانے کیلئے یہاں رکتے ہیں اور قہوہ پیتے ہیں انہون نے کہا کہیہ قہوہ کافی مشہورہے، ہمارے بزرگ بھی یہاں بیٹھ کر یہ قہوہ پیتے تھے۔بچپن کی عادت اور روایت ہمیں یہاں آنے پرمجبورکرتی ہے ۔ہمیں یہاں بیٹھ کرسکون ملتا ہے۔اگر نہ آنا بھی چاہیں تومحض سستانے اورقہوہ پینے کیلئے آنا پڑتا ہے۔

قصہ خوانی بازار اپنی قصہ گوئی ہی نہیں بلکہ اپنے ثقافتی ورثہ کی بناء پر بھی مشہور و معروف تصور کیا جاتا ہے۔ بھارت کی فلمی دنیا کے بعض شہرہ آفاق ستارے جنہوں نے فلم انڈسٹری پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں ،ان کا بچپن اسی بازار کے قرب وجوار میں واقع محلے میں گزرا۔ڈھکی نعل بندی نامی محلے میں وہ مکان آج بھی موجود ہے جہاں ایک زمانے میں بھارتی نامور اداکار راج کپور کی رہائش تھی۔ اس نے شباب کے عالم میں 22 سال کی عمر میں پشاور کو الوداع کہا اور دو دن اور دو راتوں کے سفر کے بعد ممبئی پہنچااور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چند برسوں میں وہ بھارت کا صف اول کا اداکار بن گیا اور اس طرح کپور خاندان چار نسلوں سے بھارتی فلمی صنعت پر راج کر رہا ہے۔

قصہ خوانی بازار سے صرف پانچ منٹ سے بھی کم فاصلے پر واقع محلہ ڈوما گلی کے ایک مکان میں بھارت کے لیجنڈری اداکار یوسف خان المعروف دلیپ کمار نے جنم لیا۔یوسف خان یعنی دلیپ کمار دسمبر1922میں یہاں پیدا ہوئے ان کے والد جو 1930 کی دہائی کے اوائل میں ممبئی منتقل ہو گئے لیکن ہر دو تین سال بعد بچے چھٹیوں میں واپس یہیں آجاتے۔ یہ بچے یہاں کی لذید اور خوش ذائقہ مٹھائیوں سے بھی لطف اندوز ہوتے اور ان محلوں میں گھنٹوں کھیلتے رہتے۔ دلیپ کمار مختلف مواقع پر پاکستان کے دورے اور پشاور میں اپنے آبائی گھر سے وابستہ بچپن کی خوش گوار یادوں کا تذکرہ بہت جذباتی اور پر مسرت انداز سے کرتے رہےہیں۔


یہ بازار مزاحمت کی ایک علامت بھی سمجھا جاتا ہے ۔انگریز کے خلاف جنگ آزادی کی تحریک ہو یا تاجروں سمیت مختلف طبقہ ہائے زندگی کی جانب سے کسی مسئلہ پر احتجاج ہو، اس تاریخی بازار میں لوگ مختلف مواقع پر اپنے حق کے لئے اواز اٹھائے دکھائی دیتے ہیں ۔ بالخصوص انگریزوں کے خلاف آزادی کی تحریک اس بازار کے ذکر کے بغیر ادھوری رہے گی۔ ان میں ایک اہم ترین واقعہ 1930میں قصہ خوانی بازار کے شہداہ کا ہے۔ جب آزادی کی تحریک کے دوران ایک جلوس پر فائرنگ کا اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق انگریز کے خلاف پر امن احتجاج کے واقعہ میں 20 نہتے افراد شہید ہوئےجبکہ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق 400 افراد شہید ہوئے تھے ,۔اس واقعہ کی یادگار دومیناروں کی صورت میں آج بھی بازار میں ایستادہ ہے۔

کئی دہائیاں گزر گئیں ، شہداء کے خون، احتجاجی تحاریک اور قصوں کی بازگشت آج بھی قصہ خوانی بازار اور تاریخ کے اوراق میں سنائی دیتی ہے تاہم یہاں کے قہوہ خانے اس کی روایات کو آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔