پشاور کا واقعہ پاکستان کی ریاست، 22 کروڑ عوام اور ہم سب کے خلاف ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ہر صورت میں جیتنا ہے، وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ کاقومی اسمبلی میں اظہارخیال

عوام کو آٹے اور گندم کی بلاتعطل فراہمی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا،وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ

اسلام آباد۔31جنوری (اے پی پی):وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے کہاہے کہ پوری قوم دہشت گردی کے خلاف اپنی مسلح افواج، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کے ساتھ ہے، پشاور کا واقعہ پاکستان کی ریاست، 22 کروڑ عوام اور ہم سب کے خلاف ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ہر صورت میں جیتنا ہے، پالیسی سازی پارلیمان کاکام ہے، پارلیمان سے رہنمائی حاصل کریں گے، گزشتہ چار سال میں جن چیزوں سے صرف نظر کیا گیا اور جو پالیسیاں بنائی گئیں اس سے دہشت گردی دوبارہ شروع ہو گئی۔

منگل کو قومی اسمبلی میں سانحہ پشاور پر بحث میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کہا کہ 2008ء سے لے کر 2016ء تک پنجاب اور لاہور میں دہشت گردی کے درجنوں واقعات رونما ہوئے، ایک ایک واقعہ میں سو، سو سے زائد لوگ شہید ہوئے، پنجاب اسمبلی کے سامنے دہشت گردی کے واقعہ میں ڈی آئی جی کی سطح سے لے کر کانسٹیبل کی سطح کے اہلکار جام شہادت نوش کر گئے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ ان واقعات کی تحقیقات میں جو لوگ پکڑے گئے ان میں سے 99 فیصد خود کش حملہ آوروں کا تعلق پنجاب سے نہیں تھا، میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ ان کا تعلق کہاں سے تھا، وہ گمراہ اور پاکستان دشمن تھے، پنجاب سے ایک بھی آواز نہیں اٹھی کہ آپ ہمیں کس بات کی سزا دے رہے ہیں، اس لئے میں اس بات کو رد کرتا ہوں کہ پشاور اور لاہور کی بات کی جائے یا پشاور اور راولپنڈی کی بات کی جائے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں لیکن ہمارے اداروں، سکیورٹی فورسز اور قوم کا عزم مضبوط ہے، جب بنوں میں دہشت گردوں نے تھانے کے عملہ کو یرغمال بنایا اور مطالبات پیش کئے تو حکومت نے آپریشن کیا اور دہشت گردوں کے کسی مطالبے کو تسلیم نہیں کیا، اس میں افسران اور جوانوں نے شہادتوں کا نذرانہ پیش کیا۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ خیبرپختونخوا کی پولیس، رینجرز، مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار آئے دن آپریشن کر رہے ہیں جس میں دہشت گرد ہلاک اور گرفتار ہو رہے ہیں، ان کارروائیوں میں ہمارے جوان اور افسران شہید اور زخمی ہو رہے ہیں، پنجاب میں آئے روز دیہاتوں اور شہروں میں شہداء کے جسد خاکی جا رہے ہیں، وہاں پر لوگ دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہیں لیکن کبھی کسی نے یہ بات نہیں کی کہ ہمارا کیا قصور ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ ایک ایسا دکھ ہے جو ہم سب کا مشترکہ ہے، جس طرح وزیر دفاع نے کہا ہے کہ اجتماعی غلطی ہوئی ہے، ہم سے کوتاہیاں اور لاپرواہیاں ہوئی ہیں مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے روزانہ کی بنیاد پر انٹیلی جنس پر مبنی کارروائیاں کرتے ہیں اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں، پوری قوم دہشت گردی کے خلاف اپنی مسلح افواج، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کے ساتھ ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ حکومت کی پالیسی کیا ہو گی، پالیسی حکومت نہیں بلکہ یہ معزز پارلیمان دے گی، وزیراعظم خود ایوان میں تشریف لائیں گے، پشاور میں دہشت گردی کے واقعہ کی تحقیقات کے بعد آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی اس ایوان میں آئیں گے اور جس طرح 6، 7 ماہ قبل پارلیمنٹیرین کو بریفنگ دی گئی تھی اور پالیسی تیار کی گئی تھی اسی کے مطابق امور نمٹائے جائیں گے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ کل وزیراعظم، وزیر دفاع، آرمی چیف اور وہ خود پشاور گئے تھے جہاں زخمیوں کی تیمار داری کی گئی اور شہداء کے خاندانوں سے تعزیت کی گئی۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ وزیراعظم نے ہمیں ہدایت کی ہے کہ ایوان کو اعتماد میں لیا جائے، وزیراعظم خود بھی پارلیمان اور اراکین سے رہنمائی حاصل کریں گے، اسی طرح عسکری قیادت بھی معزز اراکین سے رہنمائی حاصل کریں گے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ہر صورت میں جیتنا ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ سانحہ اے پی ایس کے بعد بھی ہماری حکومت نے قومی قیادت سے رہنمائی حاصل کی تھی، اس وقت 126 دن تک دھرنا اور گالیاں دینے والے رہنما کو وزیراعظم نے خود فون کیا اور انہیں کہا کہ آپ خود تشریف لائیں، ہم پالیسی مرتب کرنا چاہتے ہیں، اس کے بعد ردالفساد شروع کیا گیا جس کے پیچھے پوری قوم کھڑی ہوئی، اس سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوا مگر بدقسمتی سے گذشتہ چار سالوں میں جن چیزوں سے صرف نظر کیا گیا اور جو پالیسیاں بنائی گئیں اس سے دہشت گردی دوبارہ شروع ہو گئی، میں اعداد و شمار اس ایوان کے سامنے رکھوں گا اور قوم کو بتاؤں گا کہ ان پالیسیوں سے 12 سال پہلے والی صورتحال کیوں پیدا ہوئی ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ اس وقت جو بریفنگز ہوئی تھیں اس میں وہ خود موجود تھے، ان بریفنگز میں اس بات پر اتفاق تھا کہ آگے کا لائحہ عمل ہونا چاہئے تاکہ دہشت گردوں کو انگیج کیا جائے، ان کی تعداد پانچ سے سات ہزار جبکہ ان کے خاندان کے افراد کی تعداد 25 ہزار کے قریب تھی، اس میں فیصلہ ہوا تھا کہ جو بھی آئین کے تابع واپسی کرنا چاہتے ہیں ان کو موقع دیا جائے گا مگر وہ اپنے آپ کو پہلے قانون کے حوالے کریں گے، اس پالیسی، سوچ اور فیصلے کے حوالہ سے میں کسی کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہتا لیکن یہ فیصلہ اور پالیسی غلط ثابت ہوئی ہے اور اس کے نتائج غلط نکلے، اس کے نتیجہ میں ایسے لوگوں کو بھی چھوڑا گیا جن کو سزائے موت ہوئی تھی۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ اب ہمیں ایک نئے سرے سے ان امور کو دیکھنے کی ضرورت ہے، وزیراعظم اور عسکری قیادت تمام شراکت داروں کو اعتماد میں لیں گے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ پچھلی حکومت نے فاش غلطیاں کی ہیں، اس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا ہو گا، میرا یقین ہے کہ اب جو دانشمندانہ پالیسی بنے گی وہ کامیابی سے ہمکنار ہو گی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ کل جو پشاور میں واقعہ ہوا ہے وہ انتہائی افسوسناک تھا، یہ واقعہ پولیس لائنز کی مسجد میں ہوا، سبھی لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اتنی سکیورٹی کے علاقہ میں دھماکہ کس طرح ہوا، اس حوالہ سے تحقیقات ہو رہی ہیں تاہم آئی جی پولیس نے بتایا کہ اس ایریا میں 600 سے لے کر 700 تک خاندان رہائش پذیر ہیں، بعض ایسے دفاتر بھی یہاں موجود ہیں جہاں عام لوگوں کا آنا جانا ہوتا ہے، آئی جی نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ جو خاندان رہائش پذیر ہیں ان میں سے کسی نے دہشت گردوں کو سہولت کاری فراہم کی ہو گی تاہم اس حوالہ سے تحقیقات جاری ہیں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ واقعہ کی ذمہ داری ٹی ٹی پی کے خراسانی گروپ نے قبول کی ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ واقعہ میں سو کے قریب شہادتیں ہو چکی ہیں جن میں تین سویلین اور 97 پولیس و سکیورٹی اہلکار شامل ہیں، شہداء کی تعداد میں اضافہ کا خدشہ ہے کیونکہ 27 کی حالت تشویشناک ہے، ہم ان کی زندگیوں کیلئے دعاگو ہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ریسکیو آپریشن مکمل ہو چکا ہے، ملبہ ہٹا دیا گیا ہے، خودکش حملہ آور کے سر اور جسم کے ٹکڑے جمع کرکے لیبارٹری بھجوا دیئے گئے ہیں، سی سی ٹی وی فوٹیج اور جیوفنسنگ کا عمل مکمل ہو چکا ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے تحقیقات مکمل کرنے کے قریب ہیں، ایک دو دن میں ایوان کو دوبارہ آگاہ کروں گا اور پالیسی بیان بھی جاری ہو گا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ پشاور کا واقعہ پاکستان کی ریاست، 22 کروڑ عوام اور ہم سب کے خلاف ہے، میں یقین دلاتا ہوں کہ ہر شہید ہمارے لئے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ انہوں نے مادر وطن کیلئے قربانی دی، شہداء کے خاندانوں کا دکھ اور درد اسی طرح ہے جیسے وہ ہمارے بھائی اور عزیز ہوں۔