اقوام متحدہ۔13جنوری (اے پی پی):اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کے باعث ایک ملین (10 لاکھ) سے زائد ذہنی صحت کے بحران کا شکار ہیں،انہیں نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے جس کے فنڈز دستیاب نہیں۔
یہ بات اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسف نے گزشتہ روز جاری ہونے والی اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہی۔ یونیسیف نے کہا کہ غزہ کے بچے اسرائیل کی شدید بمباری، خاندان کے افراد کی شہادتوں اور ناکہ بندی کے علاقے میں خوفناک انسانی صورتحال کی وجہ سے خوف کا شکار ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اکتوبر 2023 میں غزہ میں اسرائیلی جنگ شروع ہونے کے بعد سے 19 ہزار فلسطینی بچے یتیم ہو چکے ہیں۔دماغی صحت کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں بچوں کی ذہنی صحت پر مہینوں کی اسرائیلی جنگ کا بہت بڑا اثر نسلوں تک برقرار رہ سکتا ہے۔
دریں اثنا غزہ میں فلسطین کے محکمہ شہری دفاع کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ دنوں کے دوران محصور علاقے میں اسرائیلی حملوں سے 70 فلسطینی بچے مارے گئے ہیں۔ ایک حالیہ رپورٹ میں یونیسیف نے کہا کہ 2025 کے پہلے ہفتے کے دوران غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے بے رحمانہ تشدد میں 74 بچے مارے گئے۔
یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے تشدد کے خاتمے کے لیے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے بچوں کے لیے نیا سال مزید اموات اور مصائب لے کر آیا ہے جس میں مبینہ طور پر 74 بچے شہید ہوئے ہیں۔ انہوں نے نئے سال کے آغاز میں بچوں کی اس تعداد پر گہری تشویش کا اظہار کیا جو یا تو مارے گئے یا اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں۔
اکتوبر 2023 سے اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں 46 ہزار 565 فلسطینیوں کو شہید کیا ہے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں جبکہ 109،378 زخمی ہوئے ہیں۔اسرائیل غزہ میں خوراک اور بنیادی سامان کی ترسیل روک کر شہریوں کی فاقہ کشی کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔