مدد کی بھیک نہیں،آلودگی پھیلانے والےممالک سے ماحولیاتی انصاف چاہتے ہیں،مالی معاونت قرضوں کی صورت میں نہیں ہونی چاہئے، وزیراعظم شہبازشریف کا انٹرویو

حکومت آزادیِ صحافت کو ملک میں شفافیت اور احتساب کیلئے کلیدی اہمیت دیتی ہے،وزیر اعظم محمد شہباز شریف

اسلام آباد۔6اکتوبر (اے پی پی):وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ وہ تباہ کن سیلاب کے بعد مدد کی بھیک نہیں مانگیں گے بلکہ وہ آلودگی پھیلانے والے امیرممالک سے ماحولیاتی انصاف چاہتے ہیں، ہم مالی معاونت کی بات کررہے ہیں لیکن یہ مزید قرضوں کی صورت میں نہیں ہونی چاہئے، عالمی برادری کو سیلاب زدگان کی بحالی اور تعمیرنو کےلئے مزید بہتر اور بڑے منصوبے کے ساتھ آگے آنا چاہئے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے برطانوی اخبار’’دی گارڈین‘‘کو انٹرویو میں کیا۔

انہوں نے کہا کہ سیلاب سے پاکستان میں شدید تباہی ہوئی ہے ہمیں سیلاب کے بعد آلودگی پھیلانے والے امیرممالک کے سامنے کشکول پھیلانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، انہیں عالمی برادری سے ماحولیاتی انصاف چاہئے۔وزیراعظم نے خبردار کیا کہ پاکستان کومون سون کی شدید بارشوں کے بعد صحت ، تحفظ خوراک اور عارضی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی بحالی جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ، ان شدید بارشوں کے نتیجے میں تباہ کن سیلاب کے باعث ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آیاہے،بعض علاقوں میں شدید طوفانی بارشیں ہوئیں ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا کاربن کے اخراج میں 0.8فیصد حصہ ہے ، اب یہ کاربن کے اخراج کی وجہ بننے والے ترقی یافتہ ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہوں۔شہباز شریف نے کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنے بڑے پیمانے پر تباہی اور اپنے عوام کے مصائب نہیں دیکھے، وہ اپنے ہی ملک میں ماحولیات سے متاثرہ مہاجرین بن گئے ہیں۔

انہوں نے عالمی برادری کی جانب سے دیئے گئے اربوں روپے کے فنڈز، عطیات اورمزید مدد کے وعدوں کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس ماحولیاتی تبدیلی سے ہمارے ملک میں ہونے والی تباہی ہمارے معاشی وسائل سے باہر ہے ، ہمارے پاس دستیاب وسائل اور ضروریات کے درمیان فرق بہت زیادہ ہے جو روز بروز مزید بڑھ رہا ہے۔

وزیراعظم نے ماحولیاتی انصاف سے متعلق واضح کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی پر الزام تراشی نہیں کررہے ، ہم جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں یہ ہمارا کیا دھرا نہیں بلکہ ہم اس سے متاثرہ ہیں، کیا مجھے کشکول اٹھا کر مدد کی اپیل کرنی چاہئے؟ یہ د ہرا صدمہ ہے ، یہ نا انصافی ہے اورغیرشفافیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چین اور پیرس کلب سمیت سب سے غیرملکی قرضوں کی معطلی کے امکانات پر بات چیت کررہے ہیں، پاکستان کسی صورت بھی نادہندہ نہیں ہوگا ۔ ہم مالی معاونت کی بات کررہے ہیں لیکن یہ مزید قرضوں کی صورت میں نہیں ہونی چاہئے۔

وزیراعظم نے کہا کہ وہ ہمدردانہ بیانات پر شکر گزار ہیں تاہم ان اعلانات کو عملی اقدامات میں تبدیل کرنا بہت اہم ہے، عالمی برادری بہترین کام کررہی ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ انہیں سیلاب زدگان کی بحالی اور تعمیرنو کےلئے مزید بہتر اور بڑے منصوبے کے ساتھ آگے آنا چاہئے۔ شہبا ز شریف نے کہا کہ امیر ممالک نے ایک دہائی قبل ترقی پذیر ممالک کےلئےکسی موسمیاتی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کےلئے ایک سال میں 100 ارب ڈالرماحولیاتی فنڈ میں دینے کا وعدہ کیا تھا، یہ رقم کہاں ہے؟ امیر ممالک کے لئے اپنے وعدے پورے کرنے کا یہ بہترین وقت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم تلافی کا نہیں کہہ رہے ، میرا خیال ہے کہ اس وقت تلافی کی بات کرنا مناسب نہیں ہے تاہم میں جو کچھ کہہ رہا ہوں انہیں اس صورتحال کا نوٹس لینا اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کےلئے اس سےپہلے کہ دیر ہوجائے اورنقصانات کی تلافی ممکن نہ ہو ،انہیں فوری اقدامات کرنا چاہئیں ۔

انہو ں نے کہا کہ تباہ کن سیلاب کی صورتحال اورمتاثرہ علاقوں کے درمیان طویل فاصلے کے باعث حکومت اب بھی چیلنجز پر قابو پانے کےلئے کوشاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سیلاب سے متاثرہ لوگوں میں بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے شفاف طریقے سے فلڈ ریلیف فنڈ تقسیم کررہی ہے۔