ہندوتوا نظریہ کی وجہ سے بھارتی معاشرہ تباہی کی جانب گامزن ہے، گوجرہ واقعہ اور بابری مسجد میں بھارتی سپریم کورٹ نے انتہائی متعصبانہ انداز میں کام کیا ، ہندوستان میں اقلیتوں کو اعلی عدلیہ سے کوئی امید نہیں، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا انٹرویو

اسلام آباد۔15دسمبر (اے پی پی):صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ ہندوتوا نظریہ کی وجہ سے بھارتی معاشرہ تباہی کی جانب گامزن ہے، غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے ، وہ آر ایس ایس کے عیسائیوں کو جبری طور پر مذہب تبدیل کرنے سمیت ، مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف پالیسیوں کی حمایت میں طویل عرصے سے جاری اقدامات کا تسلسل ہے، گوجرہ واقعہ اور بابری مسجد میں بھارتی سپریم کورٹ نے انتہائی متعصبانہ انداز میں کام کیا ، ہندوستان میں اقلیتوں کو ان کی اعلی عدلیہ سے کوئی امید نہیں، اس کے برخلاف پاکستان میں مذہبی تاریخی مقامات کو بدھ مت کے نمونے کی طرح محفوظ کیا گیا، پاکستان متوازن خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کی کسی بھی طرف جھکائو نہیں۔ ان خیالات کااظہارانہوں نے منگل کو پی ٹی وی سے نشر کئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کیا۔ صدر مملکت نے کہا کہ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے ، وہ آر ایس ایس کے جلسوں کے ذریعہ عیسائیوں کے جبری طور پر مذہب تبدیل کرنے سمیت ، مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف پالیسیوں کی حمایت میں طویل عرصے سے جاری اقدامات کا تسلسل ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ سب کچھ مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے اور ان کے دورحکومت کو ہندوں اور ہندوستان کے لئے برا قرار دیتے ہوئے اس کو خارج کرکے بھارت کی تاریخ دوبارہ لکھنا تھا۔اس سے ہندو آریہ سماج کی صورتحال کی عکاسی کی گئی جس نے ہندو قوم پرستی کے غلبے کو فروغ دیا۔صدر عارف علوی نے ہندوتوا کے ایک سرگرم حامی ، گول والکر تک تاریخ کا حوالہ دیتےہوئے کہاکہ گولوالکر کے بعد آر ایس ایس میں مودی اور ایڈوانی جیسے سیاسی افراد رکن ہیں،انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس ایک متشدد تنظیم بن گئی کیونکہ گول والکرجیسے اس کے بانیوں نے ہمیشہ ہٹلر کے کردار کو سراہا اور ہندو قوم پرستی کے معاملے کو ہندوستان میں فعال کیا گیا۔یہ ہندوستان کو ہندو ریاست کی جانب منتقل کرنے کے اقدامات کا تسسل ہے۔ اسی کی عکاسی اب بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر میں بھی ہو رہی ہے۔صدر نے 2002 کے دوران لکھی گئی خشونت سنگھ کی کتاب بھارت کا خاتمہ کا حوالہ دیا ، جس میں مصنف نے کہا تھا کہ “ہندوستان کتوں کے پاس جارہا ہے”جب تک کوئی معجزہ ہمیں نہیں بچاتا بھارت خود سے ٹوٹ جائے گا”۔ یہ خود کشی ہم خود کررہے ہیں کسی اور ملک کااس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان کے سیکولر ملک ہونے کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ جن ممالک نے ترقی کی ہے ، ان میں جامع ادارے تھے جو نہ تو نکالنے والے تھے اور نہ ہی استحصالی تھے جبکہ ہندوستان دلتوں اور مسلمانوں کو معاشی طور پرنشانہ بنانے کے باعث غلط سمت جا رہا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستانی معاشرہ اور ادارے اقلیتوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ رکھتے ہیں کیونکہ صرف ایک یا دو فیصد مسلمان نمائندے ہندوستان کی پارلیمنٹ میں حصہ لے سکتے ہیں۔صدر نے ہندوستان کے ایک سیاست دان ایم جے اکبر کی کتاب فسادات کے بعد فسادات کاحوالہ دیاجس میں یہ ذکر کیا کہ ہر فساد کا مقصد ہندوستان میں مسلمانوں کو معاشی طور پر محروم کرنا تھا۔ صدر نے کہا کہ یہ سب ہندوستان میں مسلسل جاری ہے جبکہ پاکستان نے اپنی تین دہائیوں کی ماضی کی تاریخ سے سبق سیکھ لیا ہے اور آگے بڑھ گیا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت اپنے پیدا کردہ خرابیوں میں پڑ رہا ہے۔بی جے پی کی زیر قیادت حکومت کی یہ ساری نفرت انگیز پالیسیاں انتہائی نقصان دہ ثابت ہوں گی جیسا کہ کسانوں اور سکھوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ شہریت کا نیا قانون اور آسام ایکٹ سے بڑے پیمانے پر ہندوستان میں بسنے والے بنگالی مسلمانوں کو متاثر کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے میں جب اقلیت ہونے کو جرم کے طور پر پیش کیا گیا تواور انہیں الگ تھلگ کیا گیا تو یہ ان کی نسل کشی کے مترادف ہو گا۔انہوں نے کہا کہ گجرات فسادات میں عدلیہ بدل گئی اور ذمہ دار افراد کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔ اس سے ریاستی دہشت گردی اور اقلیتوں کا الگ تھلگ ہو جانا ظاہر ہوتا ہے۔ صدر نے کہا کہ ہندوستان دیواریں کھڑی کررہا ہے اور کہتا ہے کہ کشمیر کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔پاکستان کی ترجیح کشمیر تھی اور تقسیم کے اصولوں کے مطابق گورداس پور کو پاکستان کا حصہ ہونا چاہئے تھا۔ بھارت کو کشمیر تک رسائی فراہم کرنے کے لئے ہیرا پھیری کے بعد اس کی تشکیل کی گئی تھی۔صدر نے کہا کہ پچاس کی دہائی کے بعد ، اقوام متحدہ سے بڑی امیدیں وابستہ ہوگئیں اور پاکستان پہلا ملک تھا جس نے نومنتخب عالمی ادارہ اور اس کا حصہ بننے والے ممالک پر اعتماد کرتے ہوئے جنگ بندی کو قبول کیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو قبول کرلیا تھا لیکن ہندوستان بھاگ گیا۔ انہوں نے کہا گزشتہ سال 5 اگست کو ہندوستان نے غیر آئینی اور یکطرفہ طور پر ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کرکے بھارت کے غیر قانونی زیرتسلط کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کردیا حالانکہ پاکستان نے ان دفعات کو تسلیم نہیں کیا۔ بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں بھارتی مظالم اور ظلم و بربریت کشمیری عوام کی مسلسل وحشیانہ محکومیت کا ایک واضح مظہر ہے۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان فلسطینی عوام کو محکوم بنانے کی اسرائیلی اقدامات کی پیروی کررہا ہے اور انہی اصولوں پرکشمیری عوام پر مظالم ڈھارہا ہے۔ محکومیت کے یہ حربے قوانین میں تبدیلی ، زمین کی آبادکاری ، پیلٹ گنوں کے استعمال اور لوگوں کو سزا اور عورتوں سے عصمت دری کے قتل پر مبنی ہیں۔ صدر مملکت نے کہا کہ اس منظر نامے میں پاکستان بھارت سے مسلسل مطالبہ کررہا ہے کہ وہ مقبوضہ وادی کو دنیا کے لئے کھولے تاکہ دنیا جان سکے کہ وہاں کیاہو رہا ہے۔ عوام کا محکومیت سے آزادی کا حصول اقوام متحدہ کے چارٹر کا ایک حصہ ہے۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ بطور صدر انہیں مایوسی ہوئی کہ بین الاقوامی تنظیمیں تجارت اور مالی مفادات کے باعث بھارت کی جانب زیادہ راغب ہیں۔ انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ نو منتخب امریکی صدر تنازعہ کشمیر کے حل میں اپنا کردار ادا کرے گا۔صدر نے اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کا بھی مسئلہ کشمیر کی مستقل حمایت کرنے پر شکریہ ادا کیا تاہم انہوں نے کہا کہ دوسری طرف بھارت اپنی بالادستی اور جنونی عزائم کی وجہ سے اس مسئلہ کو حل نہیں کرنا چاہتا۔ اس نے اپنے جھوٹے دلائل کے ساتھ غیر ذمہ دارانہ رویہ جاری رکھے ہوئے ہے لیکن اسے یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ لوگوں کو اپنی غیر قانونی اور غیر انسانی ہتھکنڈوں سے دبا نہیں سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ہندوستان میںاقلیتوں کی نسل کشی کے بارے میں دنیا کو یاد دلاتا رہا ہے۔صدر نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف میں کشمیری عوام کے انسانی حقوق کے معاملات اٹھائے جا سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کشمیری عوام کی اس وقت تک مسلسل حمایت جاری رکھے گا جب تک کہ یہ غیر قانونی ہندوستانی قبضے سے آزاد نہیں ہو جاتا۔انہوں نے کہا کہ اگر سب کچھ غلط ہے تو ہندوستان کو سب کچھ کھولنا چاہئے اور بین الاقوامی میڈیا کو بھارتی زیر تسلط کشمیر میں آنے کی اجازت دینی چاہئے۔ اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین گروپ کا اہم کردار ہے لیکن ہندوستان کی جانب سے اس کو اجازت نہیں دی جاتی۔دنیا کو یہ جاننے کے لئے آزاد ہونا چاہئے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے، عوام اور دنیا کی صورتحال کو دیکھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ صدر نے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے کردار کی تعریف کی اور کہا کہ وہ میرٹ اور حقیقت پر بات کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مضبوط خوشحالی علاقائی امن سے وابستہ ہے۔صدر نے ہندوستان کی جانب سے جدید جنگی ٹیکنالوجی اور اسلحہ کے ذخیرہ کرنے پر بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اس نے حال ہی میں میزائلوں کی ٹکنالوجی اور لڑاکا طیارے حاصل کیے ہیں۔ ہندوستان ایک امیر ملک نہیں بلکہ ایک غریب ملک ہے جہاں لاکھوں افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ جب بھارت دفاع پر خرچ کرتا ہے تو پاکستان اس مد میں خرچ کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت ہمیشہ پاکستان کو اپنا دشمن سمجھتا ہے اور ایف اے ٹی اے ایف وغیرہ سمیت مختلف عالمی سطح پر اس کے خلاف اقدامات کرتا ہے۔صدر نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ پاکستان کووڈ۔ 19 کی پہلی لہر کی طرح دوسری لہر پر قابو پالے گا۔انہوں نے بابری مسجد کے انہدام کے بارے کہا کہ ہندوستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی تعصب سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو خوف زدہ کردیا تھا۔ ہندوستانی سپریم کورٹ کے کردار کے بارے میں انہوں نے کہا گوجرہ واقعہ اور بابری مسجد میں اس نے ” انتہائی متعصبانہ انداز میں ” کام کیا ، ہندوستان میں اقلیتوں کو ان کی اعلی عدلیہ سے کوئی امید نہیں، اس کے برخلاف پاکستان میں مذہبی تاریخی مقامات کو بدھ مت کے نمونے کی طرح محفوظ کیا گیاجو پوری دنیا میں ورثہ کے ڈھانچے کے طور پر سمجھے جاتے ہیں۔چین پاکستان اقتصادی راہداری کے بارے میں صدر نے کہا کہ پاکستان معیشت کا نیا مرکز بن کر ابھرا ہے اور یہ وسط ایشیائی ریاستوں اور چین کو مختصر ترین راستہ فراہم کرتا ہے۔سی پیک بہت بڑی بین الاقوامی سرمایہ کاری کے ساتھ اس معاشی مرکز کا ایک اہم حصہ ہے۔ کسی بھی ملک کو اس میگا تجارتی منصوبے پر تشویش نہیں ہونی چاہئے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ بھارت افغانستان اور سی پیک میں تخریب کار کی طرح کام کررہا ہے اور وہ بین الاقوامی تجارت کی قیمت پر یہ کردار ادا کررہا ہے۔صدر نے کہا کہ پاکستان متوازن خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کاکسی بھی طرف جھکاو نہیں۔پاکستان وزیر اعظم عمران خان کے وژن کے مطابق ، امریکہ اور ایران اور امریکہ اور چین کے مابین بدگمانیوں کو دور کرنے میں قائدانہ کردار ادا کرسکتا ہے۔اس نے امت مسلمہ اور توہین رسالت کے معاملے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی چیزوں کے لئے روابط کی اچھی حکمت عملی کی ضرورت ہے جس سے لوگوں کو مسائل کو سمجھنے کا موقع ملا۔انہوں نے کہا کہ دوسری طرف ہندوستان کے چین ، نیپال ، سری لنکا سمیت اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے امن کی آشا کے طور پر ہندوستانی پائلٹ ابھی نندن کو واپس بھیجا تھا لیکن افسوس ہے کہ بھارت کے اندر ہونے والی ہر چیز کے لئے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔ صدر نے کہا کہ بھارت نے اقوام متحدہ کے منشور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گذشتہ سال فروری میں پاکستانی سرحدوں کو عبور کرنے کی کوشش کی تھی اسے کم وسائل والے چھوٹے ملک سے کیا ملا۔ پاکستان نے دنیا کو دکھایا کہ اس نے کیسے بہادری سے اپنا دفاع کیا