بھارتی عدلیہ مسلم دشمن فیصلوں کے ذریعے ہندوتوا نظریئے کی آلہ کار بن گئی

اسلام آباد۔19جون (اے پی پی):بھارت کی عدلیہ اپنے مسلم مخالف فیصلوں کے ساتھ ہندوتوا نظریہ کے پیرو کارنریندر مودی کی حکومت کا آلہ کار بن چکی ہے جو نہ صرف اقلیتوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ انہیں انصاف سے بھی محروم کر رہی ہے۔مذہبی معاملات پر بھارتی عدالتوں کی طرف سے دیئے جانے والے وقتا فوقتا فیصلوں نے ثابت کیا ہے کہ بھارتی عدلیہ کھلے عام ہندوتوا نظریہ کا ساتھ دے رہی ہے اور مسلم کمیونٹی کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔

جون میں بھارتی سپریم کورٹ نریندر مودی کی حکومت کو مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کرنے سے روکنے سے انکار کے بعد اقلیتوں کےلئے اذیت کا باعث بن چکی ہے ۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہ ہم حکومت کو مسمار کرنے سے نہیں روک سکتے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کو پہلی بار ایسی صورت حال کا سامنا نہیں ہے ۔

بھارت کی تاریخ خاص طور پر مدھیہ پردیش ، آسام ، دہلی اور گجرات کی ریاستوں میں مسلمانوں پر ریاستی سرپرستی میں ہونے والے ظلم و ستم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ہندوتوا کے نظریئے کی حمایت کے لیے ایک اور حالیہ فیصلے میں بھارتی سپریم کورٹ نے کہا کہ مسلمانوں کےلئے عبادت کے لیے مسجد ضروری نہیں ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی عدالتیں اب ہندوتوا کی آلہ کار بن چکی ہیں ۔

مسلمان لڑکیوں کو حجاب پہننے سے روکنے کے ایک معاملے میں کرناٹک کی ایک ہائی کورٹ نے مارچ میں کہا تھا کہ سر پر سکارف اسلام کے لئےضروری نہیں ہے۔اپنے جابرانہ فیصلے میں تین ججوں پر مشتمل بنچ نے کہا کہ مسلم خواتین کو کلاس روم میں حجاب پہننے کی اجازت ان کی آزادی میں رکاوٹ بنے گی اور مثبت سیکولرازم کی آئینی روح کے خلاف ہو گی۔2018 میں ایک بھارتی عدالت نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سینئر رکن مایا کوڈنانی کی سزا کو کالعدم قرار دیا جنہیں 2002 میں ریاست گجرات میں 97 افراد کے قتل میں حصہ لینے پر 28 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ 2018 میں ایک خصوصی عدالت نے سوامی اسیمانند سمیت 2007 میں حیدرآباد کی مکہ مسجد بلاسٹ کیس کے تمام ملزمان کو بری کردیا ، جس کے نتیجے میں نو افراد ہلاک اور 58 زخمی ہوئے تھے۔

تمام ملزمان کا تعلق ہندوتوا نظریے پر عمل کرنے والی تنظیموں سے تھا۔سمجھوتہ ایکسپریس کیس میں 2019 میں ایک خصوصی عدالت نے بمباری میں ملوث چاروں افراد کو بری کردیا۔ سمجھوتہ ایکسپریس میں سوار کم از کم 64 افراد اس وقت ہلاک ہوئے جب ایک ہندو دائیں بازو کی تنظیم نے 2007 میں ایک دیسی ساختہ دھماکہ خیز مواد سے دھماکا کیا تھا۔اتر پردیش پولیس کے ہاتھوں 42 مسلمانوں کے بدنام زمانہ قتل عام کے لیے دہلی ہائی کورٹ نے 2018 میں مجرم پولیس اہلکاروں کو مجرم قرار دینے میں 31 سال کا عرصہ لگا دیا۔مالیانہ میں 72 مسلمانوں کے قتل عام کے مجرموں کو 34 سال بعد بھی سزا نہیں دی گئی –

کیس کو 900 بار ملتوی کیا گیا۔اس ملک کے تقریبا ًہر فرقہ وارانہ فسادات میں ، چاہے وہ دہلی (1984) ہو یا دہلی (2020) ، پولیس کو اقلیتوں کو انتہا پسندہندوئوں کی طرف سے مظالم ڈھانے میں مدد فراہم کرنے یا انہیں جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر سزا دینے میں ملوث پایا گیا ۔ہندوستان میں مسلمان اب بھی 1992 میں بابری مسجد کو شہید کرنے کا درد محسوس کرتے ہیں ، جہاں بھارتی سپریم کورٹ نے 2019 میں واقعے کے 28 سال بعد فیصلہ دیا کہ یہ جگہ بھگوان رام کی جائے پیدائش سے تعلق رکھتی ہے اور تعمیر کے لیے ایک ٹرسٹ کو زمین دی گئی ہے ۔ دوسری طرف پاکستان مذہبی اقلیتوں کی آزادی کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔

ایک واقعے میں جہاں پاکستان کے شہر کرک میں ایک ہجوم نے ایک ہندو مندر کو تباہ کر دیا ، سپریم کورٹ نے 2021 میں ایک تاریخی فیصلے میں مذہبی مقام کی دوبارہ تعمیر کا حکم دیا۔سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ شری پرمہنس جی مہاراج سمادھی مندر حکومت کی طرف سے دوبارہ تعمیر کیا جائے اور اس کے اخراجات ایک مقامی مسلم لیڈر سے وصول کیے جائیں جو مبینہ طور پر ہجوم کے تشدد کا ذمہ دار تھا جس نے نقصان پہنچایا۔رواں سال رحیم یار خان میں ایک ہندو مندر میں توڑ پھوڑ کے ایک اور عمل میں جنوبی پنجاب کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 22 افراد کو پانچ سال قید کی سزا سنائی۔

یہاں تک کہ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے گزشتہ سال سندھ کے تھرپارکر میں ایک ہندو لڑکے کو ہراساں کرنے کا سنجیدہ نوٹس لیا تھا۔صدر مملکت کی ہدایت پر سندھ پولیس نے ایک مسلمان عبدالسلام ابو داؤد کو گرفتار کیا تھا جس نے لڑکے کو ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگانے پر مجبور کیا تھا۔