فوادچوہدری کی گرفتاری کوسیاسی رنگ دینےکی کوشش نہ کی جائے،سیاسی گرفتاریاں کرناہوتیں توتحریک انصاف کی تمام لیڈرشپ اس وقت جیلوں میں ہوتی ،مریم اورنگزیب

فوادچوہدری کی گرفتاری کوسیاسی رنگ دینےکی کوشش نہ کی جائے،سیاسی گرفتاریاں کرناہوتیں توتحریک انصاف کی تمام لیڈرشپ اس وقت جیلوں میں ہوتی،مریم اورنگزیب

اسلام آباد۔25جنوری (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کی گرفتاری کو غیر سیاسی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فواد چوہدری نے الیکشن کمیشن کے ممبران اور ان کے بچوں کو کھلے عام دھمکیاں دیں جس پر سیکریٹری الیکشن کمیشن نے فواد چوہدری کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی، ان کی گرفتاری کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش نہ کی جائے، ہم گزشتہ 9 ماہ سے حکومت میں ہیں اور ان کی زبانیں سن رہے ہیں، اگر ہم نے سیاسی گرفتاریاں کرنا ہوتیں تو عمران خان، فواد چوہدری سمیت پی ٹی آئی کی پوری قیادت اس وقت جیلوں میں ہوتی، اداروں کو دھمکانے، گالیاں دینے پر عمران خان اور تحریک انصاف کے ترجمانوں کو استثنیٰ دیا گیا تو پھر یہی استثنیٰ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام اور ہرسیاسی جماعت کو دینا ہوگا، یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص کو کھلی چھٹی حاصل ہو، عوام، عدلیہ اور اداروں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ کہاں لکیر کھینچنی ہے،

پچھلے دس ماہ میں کسی صحافی کے پیٹ میں گولی لگی نہ پسلیاں توڑی گئیں، عمران خان نے اپنے دور میں صحافیوں کی آواز کو دبانے کیلئے ہر حربہ اختیار کیا، جو صحافی ان کے خلاف بولتا، وہ اگلے دن پروگرام نہیں کر سکتا تھا، صحافیوں کے پیٹ میں گولیاں ماری جاتی تھیں اور اس وقت کے وزیر اطلاعات کہتے تھے کہ بالکل ٹھیک ہوا ہے۔

بدھ کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ صبح سے ٹی وی سکرین پر پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کی گرفتاری کے حوالے سے گفتگو چل رہی ہے، کچھ لوگ اس گرفتاری کو سیاسی رنگ دینے اور اسے آزادی اظہار رائے کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری کی گرفتاری سیاسی نہیں، ان کے خلاف سیکریٹری الیکشن کمیشن نے تھانہ کوہسار میں ایف آئی آر درج کرائی ہے، فواد چوہدری نے الیکشن کمیشن کے خلاف بیانات دیئے، الیکشن کمیشن کے ممبران کے بچوں کو کھلے عام دھمکیاں دیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم گزشتہ نو ماہ سے حکومت میں ہیں، فواد چوہدری سمیت پی ٹی آئی کے لوگوں نے ہمارے خلاف جو زبان استعمال کی، اس پر ہم نے اگر سیاسی گرفتاری کرنا ہوتی تو یہ لوگ کب کے جیلوں کے پیچھے ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے 2018ء سے 2022ء تک اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین سے سیاسی انتقام لیا، نواز شریف کو اقامے پر گرفتار کیا گیا، انہیں نااہل کر کے پارٹی صدارت سے ہٹایا گیا، اسے سیاسی انتقام کہا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے کبھی اداروں کے سربراہان کے بچوں، ان کے خاندانوں کو دھمکیاں اور گالیاں نہیں دیں، نواز شریف اپنی بیٹی کے ساتھ روزانہ کی بنیادوں پر نیب کی عدالت میں پیشیاں بھگت رہے تھے، عمران خان کے حکم پر نیب اور پنجاب پولیس نے نواز شریف کی بیٹی کے گھر پر دھاوا بولا، میری موجودگی میں شاہد خاقان عباسی کو گرفتار کیا گیا، عمران خان نے بغیر وارنٹ گرفتاریاں کر کے سیاسی انتقام لیا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے ترجمان اور ان کے وزراء انہی جگہوں پر بیٹھ کر گرفتاری سے پہلے اعلان کرتے تھے کہ دو دن بعد رانا ثناء اللہ اور کیپٹن صفدر نے گرفتار ہونا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی پریس کانفرنسوں میں اعلانات کئے جاتے تھے کہ کس بندے نے کب گرفتار ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم گزشتہ 9 ماہ سے حکومت میں ہیں اور ان کی زبانیں سن رہے ہیں، ہم نے سیاسی صبر کا مظاہرہ کیا ہے، ہم تنقید سننا جانتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اپنے آفیشل پارٹی اکائونٹ سے افواج پاکستان کے شہداء کے خلاف مہم چلائی، انہوں نے میڈیا چینلز کو استعمال کر کے افواج پاکستان میں بغاوت پیدا کرنے کی کوشش کی اور یہ سب کچھ انہوں نے اعلانیہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ کوئی سیاستدان کسی سیاستدان کی گرفتاری پر خوش نہیں ہوتا، یہ جمہوریت کی روح کے خلاف ہے، فواد چوہدری کی گرفتاری سیاسی نہیں، اس فرق کو سمجھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری کے خلاف ایف آئی آر کسی سیاسی جماعت نے نہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کٹوائی ہے، سیکریٹری الیکشن کمیشن اس ایف آئی آر کے مدعی ہیں، اس ایف آئی آر میں کسی سیاسی جماعت کا نام نہیں ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ عمران خان جب فارن فنڈنگ میں پکڑے گئے تو انہوں نے الیکشن کمیشن کو دھمکانا شروع کر دیا، انہوں نے الیکشن کمیشن کو دھمکیاں دیں کہ اگر ہمیں نااہل کیا گیا تو ان کے بچوں کو نہیں چھوڑا جائے گا، پی ٹی آئی نے اپنے چار سالوں میں یہی رویہ اپنایا، آج عوام، میڈیا اور اداروں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ کہاں لکیر کھینچنی ہے، یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ عمران خان گالیاں اور دھمکیاں بھی دے اور اسے استثنیٰ بھی ملے۔

انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے اپنے دور میں میڈیا کے لوگوں کو دھمکیاں دیں، ان کے خلاف کوئی صحافی ایک لائن بھی بولتا تو اگلے دن وہ پروگرام نہیں کر سکتا تھا، جب ان کے خلاف کوئی صحافی لکھتا تو اس کا قلم اور ہڈیاں توڑی جاتی تھیں، ان کی بچیوں کے سکولوں کے باہر سے انہیں اغواء کیا جاتا تھا، صحافیوں کے پیٹ میں گولیاں ماری جاتی تھیں اور یہ لوگ ٹویٹ کر کے کہتے تھے کہ ہم نے بالکل ٹھیک کیا ہے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ انہوں نے اپنے دور میں پوری اپوزیشن کو بغیر وارنٹ جیلوں میں ڈالا، فریال تالپور کو عید کے روز جیل میں ڈالا گیا، مریم نواز کو دو مرتبہ گرفتار کیا گیا، شہباز شریف کو جیل میں نماز کیلئے کرسی تک نہیں دی جاتی تھی، رانا ثناء اللہ کو ہیروئن کے الزام میں گرفتار کیا گیا ، نہ ہیروئن کا بیگ ملا نہ ہیروئن، جیل کے باہر رانا ثناء اللہ کی اہلیہ کو گھنٹوں بٹھایا جاتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے جن لوگوں کو گرفتار کیا انہوں نے عدالتوں میں جا کر اپنے کیس لڑے، عمران خان نے طیبہ گل کو اغواء کر کے لوگوں کے خلاف کیسز بنائے، اداروں کو دھمکیاں دیں، شہداء کے خلاف مہم چلائی۔

انہوں نے کہا کہ اگر سیاسی گرفتاری کرنا ہوتی تو نو ماہ میں ہو جاتی کیونکہ ہمارے پاس بھی اسی طرح طاقت، اختیارات، قوانین، کرسی، منصب ہے جس طرح عمران خان کے پاس تھا اور عمران خان نے اس کا ناجائز استعمال کر کے سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان توشہ خانہ چوری میں پکڑے گئے اور الیکشن کمیشن کو گالیاں دیں کہ مجھے نااہل کر کے دکھائو، یہ سیشن جج کو دھمکانے کے بعد دندناتے پھرتے رہے کہ مجھے گرفتار کر کے دکھائو، عمران خان نے کہا کہ اگر مجھے نااہل کیا گیا تو میں کسی کو چھوڑوں گا نہیں، یہ کس قسم کا رویہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان اور تحریک انصاف کے ترجمانوں کو اس طرح کے رویئے کے باوجود استثنیٰ دیا گیا تو پھر یہی استثنیٰ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام اور ہر سیاسی جماعت کو دینا ہوگا، یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص کو کھلی چھٹی حاصل ہو۔

انہوں نے کہا کہ جب شہباز شریف نیب کی عدالت میں جاتے اور میڈیا سے بات کرتے تو اس وقت اونچی آواز میں لائوڈ سپیکر بجائے جاتے تاکہ شہباز شریف کی آواز میڈیا تک نہ پہنچ سکے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف اپنی بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر عدالت میں آتے، سب کو معلوم تھا کہ کیس کیا ہے، اس وقت کیوں نہیں کہا گیا کہ یہ غلط ہو رہا ہے۔ نواز شریف تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم تھے، اگر وہ عدالت میں پیش ہو سکتے تھے تو عمران خان کیوں پیش نہیں ہو سکتے، عمران خان کو جب نوٹس دیا جاتا ہے تو وہ بجائے خود حاضر ہونے کے ویڈیو لنک کے سہارے عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج 24 چینل والوں کو گالیاں دی گئیں، جو میڈیا ان کے خلاف بات کرے اسے گالی اور دھمکی دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے جو کچھ ہمارے ساتھ کیا، اگر ہم نے بدلہ لینا ہوتا تو آج ساری کی ساری پاکستان تحریک انصاف کی قیادت جیلوں کے پیچھے ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اللہ کے فضل و کرم سے چالیس سال کا حساب دیا ہے، عمران خان اپنے چار سال کا حساب دیں، جب ان سے حساب مانگا جاتا ہے تو یہ گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ قانون کی خلاف ورزی کریں، ادارے کے سربراہان کے بچوں اور فیملیز کو اپنی سیاست میں گھسیٹیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم دل، جذبہ اور صبر رکھتے ہیں، آپ ہم پر بات کریں، ہم اس کا سیاسی جواب دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ملک اس وقت عمران خان کی وجہ سے معاشی عدم استحکام کا شکار ہے، عمران خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ سخت شرائط پر معاہدہ کیا، انہوں نے سبسڈیز کو ریورس کیا، مہنگائی کو 2.4 فیصد سے بڑھا کر 16 فیصد تک پہنچایا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے نواز شریف اور شہباز شریف کے بغض میں بیورو کریسی تک کو نہیں چھوڑا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آج اداروں نے عمران خان کو استثنیٰ دینا ہے تو پھر یہ استثنیٰ مریم اورنگزیب کو بھی چاہئے کیونکہ میرے لیڈر کو ایک اقامہ پر نااہل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا ماحول نہیں چلے گا، یہ آزادی اظہار رائے نہیں ہے، اگر یہ اظہار رائے کی آزادی ہے تو پھر یہ سب کے لئے ہونی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے سائفر، امپورٹڈ حکومت، رجیم چینج، حکومت بدل دی جیسے بیانیے اختیار کئے اور اب کہہ رہے ہیں کہ میری حکومت محسن نقوی نے گرائی۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے قانون اور آئین کے تحت اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے محسن نقوی کو چیف منسٹر پنجاب لگایا، پی ٹی آئی نے جو نام دیئے ان دو لوگوں نے معذرت کرلی کہ ہم نے آپ کا وزیراعلیٰ نہیں بننا، ہم نے جو نام دیئے اس پر یہ رضامند نہیں ہوئے تو پھر الیکشن کمیشن نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے چیف منسٹر کا فیصلہ کیا جس کے بعد انہوں نے چیف منسٹر کے بچوں کو گالیاں دینا شروع کر دیں، ان کی فیملیز کو بھی گالیاں دی جا رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ کس قسم کا رویہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے قانون کے مطابق ایف آئی آر درج کروائی ہے کہ یہ شخص ہمیں دھمکیاں دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے سیاسی گرفتاری کرنا ہوتی تو سب سے پہلے عمران خان کو گرفتار کرتے، ان جگہوں کو استعمال کرتے لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج عدالتوں، سیاستدانوں اور عوام کو اس سلسلے کو مل کر روکنا ہوگا۔

صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان پنجاب اسمبلی ختم کرنے کا غصہ الیکشن کمیشن پر نکال رہے ہیں، الیکشن کمیشن نے اپنا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے وزیراعلیٰ لگایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری کا ویڈیو کلپ اس لئے میڈیا کو دکھایا ہے کہ ان کی گرفتاری سیاسی نہیں، ہم سیاسی گرفتاریاں بھگت چکے ہیں، کوئی نہیں چاہتا کہ باپ کے سامنے کسی کی بیٹی گرفتار ہو، انہیں عدالتوں میں گھسیٹا جائے، ان پر آوازیں لگائی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے دور میں عرفان صدیقی کو رات کے اندھیرے میں گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا، میں جب عرفان صدیقی کو اڈیالہ جیل سے لینے گئی تو یہ اتنے بزدل تھے کہ انہوں نے پچھلے راستے سے عرفان صدیقی صاحب کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر پٹرول پمپ پرچھوڑا، ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ یہ عرفان صدیقی کو سامنے کے راستے لا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی طرح ہم اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کرتے، اگر آج کوئی بھی ایسا اختیار استعمال کرے گا تو یہ اس ملک کی بقاء اور ملک کے نظام کے لئے خطرناک ہوگا۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے عدالتوں میں پیش ہو کر اپنے مقدمات کا سامنا کیا، عمران خان کے اندر ہمت نہیں کہ وہ عدالتوں میں خود پیش ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف ایک کیس میں عمران خان سکائپ کے ذریعے پیش ہوئے اور شوکت خانم ہسپتال کے خیرات کے پیسوں کو ہائوسنگ سوسائٹی میں انویسٹ کرنے کا اعتراف کیا۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ جب ابصار عالم کے پیٹ میں گولیاں ماری گئیں اور اسد طور کی پسلیاں توڑی گئیں تو اس وقت کے وزیر اطلاعات نے کہا تھا کہ بالکل ٹھیک ہوا ہے، اس قسم کی آزادی اظہار کی کوئی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری کے خلاف تھانہ کوہسار میں الیکشن کمیشن نے درخواست دی جس پر اسلام آباد پولیس نے ایکٹ کیا ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ملک میں سیاسی نظام کسی قسم کے ڈیڈ لاک کی طرف نہیں بڑھ رہا، ہم پی ٹی آئی کی تباہ کی گئی معیشت کو ٹھیک کر کے الیکشن میں جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی شور مچائے گی کیونکہ یہ چاہتے ہیں کہ معاشی تباہی ہو، یہ ان کا نامکمل ایجنڈا ہے جس میں یہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ انہوں نے اپنے چار سالوں میں مہنگائی کو 2.4 فیصد سے 16 فیصد تک پہنچایا، یہ ملک کو ڈیفالٹ کرنا چاہتے تھے، انہوں نے اپنے چار سالوں کے دوران کوئی کام نہیں کیا، اس وقت بھی سیاسی عدم استحکام تھا اور آج بھی یہ چاہتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام ہو۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اپنی مرضی سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑیں، آئین کے مطابق پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزراء اعلیٰ تعینات ہو چکے ہیں، ملک میں کوئی سیاسی ڈیڈ لاک نہیں، ایک غنڈے اور سیاستدان میں فرق ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ عوام فکر نہ کریں، مشکل حالات ضرور ہیں، جن لوگوں نے یہ مشکل حالات پیدا کئے ہیں آج وہ اس ملک میں عدم استحکام چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انشاء اللہ مسلم لیگ (ن) پہلے کی طرح نہ صرف ملک سے مہنگائی ختم کرے گی بلکہ ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرے گی۔