الیکشن کمیشن کی جانب سے 8 اکتوبر کی دی گئی تاریخ منطقی اور ملک میں استحکام اور افراتفری سے بچنے کیلئے ایک درست فیصلہ ہے، وزیراعظم کے مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ کی پریس کانفرنس

وزیراعظم کے مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ

اسلام آباد۔27مارچ (اے پی پی):وزیراعظم مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے 8 اکتوبر کی دی گئی تاریخ منطقی ہے اور ملک میں استحکام اور افراتفری سے بچنے کیلئے ایک درست فیصلہ ہے، صاف شفاف انتخابات کیلئے ملک میں امن و امان کا ہونا بھی ضروری ہے، الیکشن کمیشن ملک میں ٹھہرائو کیلئے اگر ایک ہی وقت میں انتخابات کرانا چاہتا ہے تو اس منطق میں وزن ہے، ملکی مسائل کے حل کیلئے اجتماعی دانش اور کاوشوں کی ضرورت ہے، جذباتی اور ہیجانی کیفیت میں کئے گئے فیصلے ملک کیلئے نقصان دہ ہیں۔

پیر کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قمر زمان کائرہ نے کہا کہ اس وقت ملک کے اندر ایک ہیجانی کیفیت ہے، ہر طرف غصہ پایا جاتاہے، اس غصے اور ہیجان میں مکالمہ غصے کا شکار ہے، عقل، فہم اور تدبر کی بجائے صرف غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے، وہ اسمبلیوں کے اندر، میڈیا میں مباحثہ، فیصلہ سازی یا انفرادی رویے ہیں، اس وقت عمومی طور پر ایک ہیجانی کیفیت پائی جاتی ہے، عمران خان نے ملک میں ہیجان کی کیفیت پیدا کر دی ہے، اس ہیجانی کیفیت کا شاخسانہ یہ ہے کہ اس کا پہلا شکار عقل و فہم ہوتی ہے اور درستگی سے فیصلے کرنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت جن مسائل کا شکار ہے اس سے نکلنے کیلئے انتہائی سوچ و بچار کے ساتھ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، اس پر تدبر، فہم، حوصلے اور ٹھہرائو کی ضرورت ہے،

آج ہم سب اس کوشش میں ہیں کہ اپنے مخالف کو نیچا دکھائیں، یہی صورتحال اداروں کے اندر بھی ہے جس میں حقیقت گم ہے اور قوم میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے دو صوبوں میں انتخابات کو ملتوی کیا گیا اس پر ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا کہ آئین توڑ دیا گیا، کوئی آرٹیکل 6 کی باتیں کر رہا ہے، ایک عجیب مکالمہ شروع ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں غصے کو ایک طرف رکھ کر حقائق کو دیکھنے کی ضرورت ہے، قوم ٹھنڈے دل سے چیزوں پر سوچے، ہماری کوشش تھی کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں، جس طرح اس سے قبل دو اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی تاہم ہم اس میں کامیاب نہیں ہوئے اور دو اسمبلیاں ٹوٹ گئیں، اس کے بعد 90 دن میں انتخابات کرانا آئینی قدغن تھی، جس شخص کے پاس پنجاب اسمبلی توڑنے کا اختیار تھا وہ وزیراعلیٰ تھا جو اسمبلی توڑنے سے پہلے یہ کہہ رہے تھے کہ میں اسمبلی نہیں توڑوں گا اور عمران خان اسمبلی تڑوا رہے ہیں اور اسمبلی توڑنے کے بعد بھی ان کا یہی موقف ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وزیراعلیٰ نے آزادانہ فیصلے سے یہ کام نہیں کیا، گورنرز کو تاریخ دینے کا کہا گیا اس پر بھی مباحثہ ہوا اور یہ معاملہ سپریم کورٹ میں گیا جہاں سے فیصلہ آیا اس فیصلہ کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے پنجاب میں 30 اپریل کو الیکشن کرانے کیلئے شیڈول دیا تاہم یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ الیکشن کمیشن خود الیکشن نہیں کرا سکتا کیونکہ اس کے پاس کوئی مشینری نہیں ہوتی، وہ ایک بڑے ادارے کے طور پر پورے نظام کو مانیٹر کرتا ہے، اس میں اسے سکیورٹی فورسز، عدلیہ، وزارت قانون، خزانہ کے چار اداروں سے معاونت لینی ہوتی ہے جس میں عدلیہ نے عملہ دینے سے معذوری ظاہر کی کیونکہ عدلیہ کے بغیر کرائے گئے انتخابات پر ہمیشہ سوال اٹھائے جاتے ہیں،

الیکشن کمیشن نے اس پر ایگزیکٹو سے عملہ لیا، اس کے بعد انتخابی عمل بھی شروع ہو گیا، وزارت خزانہ نے پہلی قسط بھی جاری کر دی، الیکشن کمیشن نے 50 ارب روپے کا مطالبہ کیا جس پر وزارت خزانہ نے انہیں بتایا کہ اس وقت خزانہ کی صورتحال آپ کے سامنے ہے، آئی ایم ایف سے مذاکرات چل رہے ہیں، وزارت دفاع نے کمیشن کو آگاہ کیا کہ 30 اپریل کو ہم بڑی تعداد میں تعیناتی نہیں کر سکتے کیونکہ ملک میں اس وقت امن و امان کی صورتحال سب کے سامنے ہے، ملک میں آدھے پولنگ سٹیشن انتہائی حساس ہوتے ہیں، افواج پاکستان نے کہا کہ ملک میں مردم شماری کا عمل جاری ہے اور ہماری ٹیمیں اس میں معاونت کر رہی ہیں، پولنگ سٹیشن پر فوج کی تعیناتی ممکن نہیں ہے، یہ مردم شماری 30 اپریل تک چلے گی، فوج نے کوئیک رسپانس فورس کے طور پر تیسری ٹیئر میں دستے دینے کی حامی بھری، اس کے علاوہ محکمہ تعلیم کا عملہ بھی مردم شماری میں مصروف ہونے کی وجہ سے کمیشن کو بتایا گیا کہ یہ کام 30 اپریل تک جاری رہے گا، انتخابات اہم عمل ہے لیکن مردم شماری بھی اہم ہے،

گذشتہ این ایف سی پر سابق فاٹا، کے پی کے اور سندھ کی جانب سے اعتراضات اٹھائے گئے، ان کے مطالبہ پر 10 سال کی بجائے سات سال میں کرانے کا فیصلہ کیا گیا، یہ مطالبہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں مشترکہ مفادات کونسل میں رکھا گیا تھا جس میں یہ فیصلہ ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ شفاف انتخابات کرانا بھی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمیشن نے وزیراعظم کو اس صورتحال پر خط کے ذریعے آگاہ کیا جس پر کابینہ کا اجلاس بلا کر وزیراعظم نے اس کی توثیق کی، الیکشن کمیشن کی جانب سے 8 اکتوبر سے پہلے کی تاریخ بھی دی جا سکتی تھی، 90 دن کی شق پوری نہیں ہو رہی اس لئے شاید الیکشن کمیشن نے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کیلئے یہ تاریخ دی ہے،

الیکشن کمیشن کے مطابق اگر 30 اپریل کو مردم شماری کا عمل مکمل ہوتا ہے تو پھر نئی حلقہ بندیوں کیلئے کم از کم تین ماہ درکار ہوں گے، 30 مئی کے بعد ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات ہو سکتے ہیں، الیکشن کمیشن کی جانب سے 8 اکتوبر کی دی گئی تاریخ منطقی ہے جو میرے خیال میں ملک میں استحکام اور افراتفری سے بچنے کیلئے ایک درست فیصلہ ہے، آئین کی شق 254 کے تحت اگر کسی شق پر اس کی طے شدہ مدت میں عمل نہیں ہو سکتا اور اس کی باقاعدہ وجوہات ہوں تو اس سے آئین نہیں ٹوٹے گا اور نہ ہی یہ کوئی غیر آئینی اقدام ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اداروں کی جانب سے جو جواب الیکشن کمیشن کو دیئے گئے ہیں یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا وہ غلط ہیں، اس لئے اعتراض اٹھانے والوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے، ان حالات میں کیا 30 اپریل کو صاف شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن ہے، ادارہ جاتی سپورٹ کے بغیر شفاف انتخابات ممکن نہیں، 30 اپریل کے بعد مردم شماری کے خاتمہ کے بعد سکیورٹی اور دیگر عملہ دستیاب ہو سکے گا اور ملک میں ٹھہرائو کی جانب جانے کا راستہ بھی نکل سکتا ہے، اگر کمیشن نے یہ سوچ کر فیصلہ کیا ہے تو یہ الیکشن سے فرار نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم الیکشن سے بھاگ رہے ہیں، اگر اس طرح دو صوبوں میں پہلے الیکشن ہو جاتے ہیں تو ایک مرتبہ پھر وفاق اور صوبوں کے درمیان لڑائی شروع ہو جائے گی، اس سے سیاسی تنائو میں مزید اضافہ ہو گا، اس سے یہ بہتر نہیں کہ تمام اٹھائے گئے سوالات نمٹا کر الیکشن کمیشن کی جانب جایا جائے تاکہ اگلے فیصلوں کیلئے مینڈیٹ مل سکے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری اپنی جماعت سمیت سب سے گزارش ہے کہ خدارا معاملات کو ٹھنڈے دماغ سے سوچیں اور اگر 30 اپریل کو انتخابات کا ہونا ممکن نہیں تو اس میں کچھ دنوں کی تاخیر کرکے اس کا انعقاد کیا جائے، ملک کو تنازعہ سے بچانے کیلئے کئے گئے فیصلے آئین کی پاسداری کے مترادف ہیں، اس سے پاکستان کو درپیش بحرانوں سے نکلنے کے راستے بھی نکلیں گے، اس پر تنائو اور تصادم سے خرابی مزید بڑھے گی، انتخابات کی اصل تاریخ سے تاخیر ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی کے خلاف کوئی غلط کیس درج نہیں ہونا چاہئے، یہ کبھی ثمر آور نہیں لیکن اگر کسی نے قانون توڑا ہے تو وہ چھوٹا ہے یا بڑا اسے قانون کی گرفت میں آنا چاہئے، اس سلسلہ میں تفریق نہیں ہونی چاہئے، زمان پارک سے پہلے بھی عمران خان بنی گالہ میں ہیومن شیلڈ بنا کر بیٹھے تھے،

زمان پارک میں بھی یہی تیاریاں تھیں، وہاں ڈنڈے، پٹرول بم تھے، یہ سب کو پتہ تھا، پولیس اہلکار نوٹس دینے گئے تو انہیں دھکے کھانے پڑے، اس کے بعد عدالت کے حکم پر وہ اس کی تعمیل کیلئے جاتے ہیں، اس کے بعد عمران خان یہ علم ہونے کے باوجود ان کی گرفتاری کے احکامات جاری کئے گئے ہیں وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے، پولیس پر پتھرائوں اور غلیلوں سے حملے زمان پارک سے کئے گئے، یہ کونسا ظلم و تشدد ہے کہ دو روزہ آپریشن میں 60 پولیس اہلکار زخمی ہوئے، قوم سے یہ سوال ہے کہ اگر یہی حرکت امریکہ، برطانیہ، جاپان سمیت دنیا کے کسی ملک میں ہوتی کہ پولیس پر حملے کئے جائیں، ان پر پٹرول بم اور غیر معمولی غلیلوں سے پتھر اور لوہے کے کنچے مارے جائیں تو کیا وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان میں غیر ملکی مداخلت کے راستے نہیں کھولے، ہم نے مارشل لاء کا سامنا کیا، یہ پاکستان کی فوج کے خلاف برطانیہ کے وزیراعظم کے دفتر کے باہر کھڑے ہو کر نعرے لگاتے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کا مقدمہ خراب کرنے کی کوششوں اور خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے وقت تو دنیا میں اپنی ٹیم استعمال نہیں کی گئی، اس وقت ممبران پارلیمنٹ سے ملنے کی ہدایات نہیں کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو تحمل کے ساتھ چلنا چاہئے، اگر پولیس پر پٹرول بم اور غلیلوں سے حملے کئے جائیں گے تو کیا وہ اسے برداشت کریں گے، وہ ریاست ہے اور کسی فرد یا جماعت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس کے خلاف ایسی کارروائی کرے، غصے اور ہیجانی کیفیت میں کئے گئے فیصلوں سے نقصان ہو گا،

عمران خان پہلے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے ساتھ کھیلے، کبھی چین اور سعودی عرب کو ناراض کیا، کبھی حکومت کے خاتمہ میں امریکی ہاتھ کا بیانیہ دیا، اپنے سیاسی مخالفین کو جیلوں میں بند کیا اور ان پر کوئی کیس ثابت نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنا غصہ تھوکیں اور عدلیہ کو فیصلہ کرنے دیں، عدلیہ کے جملوں سے بھی ایسا تاثر نہیں جانا چاہئے کہ اس سے یہ شائبہ ہو کہ وہ کسی ایک فریق کو سپورٹ کر رہے ہیں۔